Pages

Monday, December 19, 2016

روح نکلنے کا وقت یعنی عالم نزع


روح نکلنے کا وقت یعنی عالم نزع
یہ وہ سخت مرحلہ ہوتا ہے جب انسان ۔۔۔
اس جہاں سے ۔۔۔
اپنے پیاروں سے ۔۔۔
اپنی تعلیمی قابلیت سے ۔۔۔
اپنی تمام ذاتی صفات سے ۔۔۔
اپنی جمع شدہ دولت اور جائیداد سے ۔۔۔

ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارا لے چلتا ہے ۔۔۔
تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا ...

اس لیے اللہ تعالی بیان فرماتا ہے ۔۔۔

"جب روح سارے بدن سے کھینچ کر ہنسلی کی ہڈی (Collarbone) میں آکر اٹک جائے گی ۔ اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ، کوئی دوا دارو کرنے والا ؟ حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا ہے ۔ روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے ۔ یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے" (سورة القيامة - 26 - 30)

"جب روح نکل کر گلے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اور تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو ۔ اس وقت ہم تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں ۔ مگر تم دیکھ نہیں سکتے ۔ اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تمہیں جزا و سزا کچھ نہیں ملنے والی تو تم اس کی روح کو پلٹا کیوں نہیں دیتے؟"
 (سورة الواقعة ۔ 83 ۔ 87)

"کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے (عذاب کے لیے) اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں" (سورةالأنعام ۔ 93)

رحمۃ للعالمین نے موت کے اس انتہائی ہولناک مرحلے سے نمٹنے کا نہایت آسان نسخہ بیان فرمایا ہے ۔۔۔

"بے شک صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے"


اور اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔
"اور خیرات کرو اس مال میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے ۔ اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو (اس وقت) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کرلیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہوجاتا ۔ اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے ۔"

  (سورة المنافقون ۔ 11 ۔ 10)

-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ۔
اور نصیحت کرتے رہو ۔ کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے
۔
  (سورة الذاريات - 55)

Friday, August 26, 2016

يوم عرفہ کے فضائل

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً

یوم عرفہ انتہائی برکت وفضیلت والے ایام میں سے ہے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کا دن ہے دعاوں کی قبولیت کا خاص دن ہے الله تعالی فرشتوں کے سامنے أہل عرفات پر فخر کرتے ہیں اسی دن میں الله تعالی نے دین اسلام کی تکمیل فرمائی اور اپنی نعمت کو مکمل فرمایا اس یوم مبارک کے بعض فضائل درج ذیل ہیں
1 = عرفہ کے دن دین اسلام کی تکمیل اورالله تعالی کی نعتموں کا اتمام ہوا
قال تعالی : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ . آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطےاسلام کو دین ۔ یہ آیت مبارکہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی . نزلت هذه الآية يوم الجمعة يوم عرفة بعد العصر في حجة الوداع والنبي صلى الله عليه وسلم واقف بعرفات على ناقته العضباء فكادت عضد الناقة تندق من ثقلها فبركت. تفسير معالم التنزيل​ للبغوي . صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یھودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے کہا : اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا.توعمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔ عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلاً من اليهود قال له: يا أمير المؤمنين آية في كتابكم تقرؤونها لو علينا معشر اليهود نزلتْ لاتّخذنَا ذلك اليوم عيداً قال: أيَّةُ آيةٍ؟ قال: اليومَ أكملتُ لكم دينَكُم وأتممتُ عليكم نعمتي ورضيتُ لكم الإِسلام ديناً فقال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم الجمعة أشار عمر إلى أن ذلك اليوم كان عيداً لنا. تفسير معالم التنزيل​ للبغوي ۔ یہ آیت ۱۰ ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی جبکہ میدان عرفات میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اتقیاء وابرار رضی اللہ عنہم کا مجمع کثیر تھا۔ اس کے بعد صرف اکیاسی روز حضور صلى الله عليه وسلم اس دنیا میں جلوہ افروز رہے
2 = یوم عرفہ کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے
صحیح مسلم وغیره میں حضرت أبوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا : یہ گزرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے .عن أبي قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده قال وفي الباب عن أبي سعيد قال أبو عيسى حديث أبي قتادة حديث حسن وقد استحب أهل العلم صيام يوم عرفة إلا بعرفة . یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے . امام نووي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ : گناہوں سے مراد صغائر ہیں اگر صغائر نہ ہوں تو كبائر میں تخفیف کی امید ہے اگر كبائر نہ ہوں تو پهر درجات بلند ہوں گے . ملاعلی قاری رحمہ الله مرقات میں ذکر کیا کہ إمام الحرمين نے فرمایا کہ صغائر معاف ہوں گے ، اور قاضي عياض نے نے فرمایا کہ یہی أهل السنة والجماعة کا مذہب ہے ، اور كبائر صرف توبہ سے ہی معاف ہوں گے ، یا الله تعالی کی رحمت سے معاف ہوں گے . انتهى . سوال : حدیث میں ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہے حالانکہ اس سال کے گناه تو بنده نے نہیں کیئے تو پهر معافی کیسے ؟
جواب : مطلب یہ ہے کہ الله تعالی اس کی گناہوں سے حفاظت فرمائیں گے ، یہ بهی کہا گیا کہ الله تعالی اس کو اپنی رحمت سے اتنا ثواب عطا کریں گے کہ اگر اس سے گناه سرزد بهی ہوجائے تو وه گذشتہ سال کی طرح آئنده سال کا بهی کفاره بن جائے گا
3 = عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے یہ عید کا دن ہے
عن عقبة بن عامر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة (أي اليوم التاسع من ذي الحجة) ويوم النحر (أي اليوم العاشر من ذي الحجة) وأيام التشريق (أي اليوم الحادي عشر والثاني عشر والثالث عشر) عيدنا أهل الإسلام وهي أيام أكل وشرب . أخرجه الترمذي والإمام أحمد وأبو داود والنساني وابن خزيمة والبيهقي والحاكم وغیرهم وقال أبو عيسى وحديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح
یعنی یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں . قال الشوكاني في النيل : ظاهر حديث أبي قتادة مرفوعا : صوم عرفة يكفر سنتين ماضية ومستقبلة رواه الجماعة إلا البخاري والترمذي أنه يستحب صوم عرفة مطلقا وظاهر حديث عقبة بن عامريعني المذكور في هذا الباب أنه يكره صومه مطلقا وظاهر حديث أبي هريرة قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم عرفة بعرفات رواه أحمد وابن ماجه أنه لا يجوز صومه بعرفات فيجمع بين الأحاديث بأن صوم هذا اليوم مستحب لكل أحد مكروه لمن كان بعرفات حاجا . والحكمة في ذلك أنه ربما كان مؤديا إلى الضعف عن الدعاء والذكر يوم عرفة هنالك والقيام بأعمال الحج وقيل : الحكمة أنه يوم عيد لأهل الموقف لاجتماعهم فيه ويؤيده حديث عقبة بن عامر انتهى كلام الشوكاني محصلا
4 = یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے
اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات عظیم الشان چيز کے ساتھ ہی قسم اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے ( وشاهد ومشهود . البروج ۳ ) قسم ہے اُس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اُس کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں . روایات میں آیا کہ “شاہد” جمعہ کا دن ہے اور “مشہود” عرفہ کا دن اس کے علاوہ شاہد ومشہود کی تفسیر میں اقوال بہت ہیں۔ لیکن اوفق بالروایات یہی قول ہے۔ واللہ اعلم ۔ ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : یوم موعود قیامت کا دن اور یوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے . رواه الترمذي . وقيل غير ذلك لكن هذا أحسن ما قيل وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ أي يوم القيامة وَشَاهِدٍ يوم الجمعة وَمَشْهُودٍ يوم عرفة هذا هو أحسن ما قيل في ذلك. وقال الطبري بعد ذکر مختلف الاقوال : والصواب من القول في ذلك عندنا أن يقال إن الله أقسم بشاهد شهد ومشهود شهد ولم يخبرنا مع إقسامه بذلك أي شاهد وأي مشهود أراد وكل الذي ذكرنا أن العلماء قالوا هو المعني مما يستحق أن يقال له شاهد ومشهود
5 = اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم اٹھائی ہے
والشفع والوتر قسم ہے جفت اورطاق کی . شفع و وتر سے کیا مراد ہے ؟ اس میں اختلاف ہے لیکن حضرت جابر کی مرفوع روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ الوتر سے مراد یوم عرفہ ہے اور شفع سے مراد يوم النحر یعنی عیدالاضحی ہے . وهو أثبت شيء في تفسيرهما. عن جابر مرفوعاً من أن الوتر يوم عرفة والشفع يوم النحر . أخرجه الإمام أحمد والنسائي والبزار والحاكم وصححه . والله أعلم
6 = یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیا تھا
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خـبر تھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( ۱۷۲، ۱۷۳ ) مسند احمد ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ لہذا معلوم ہوا کہ یہ کتنا ہی عظیم دن ہے کہ اس میں بڑا عظیم عھدو میثاق لیا گیا
7 = اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے
صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا ہے اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں . إن الله تعالى يباهي ملائكته عشية عرفة بأهل عرفة يقول: انظروا إلى عبادي أتوني شعثا غبرا .رواه الطبراني. یہ حدیث صحیح ہے
8 = یوم عرفہ حرمت والے مہینوں کے أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ) [سورة التوبة : 39]. والأشهر الحرم هي ذو القعدة وذو الحجة ومحرم ورجب ويوم عرفه من أيام ذي الحجة
9 = یوم عرفہ أشهر حج أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ) سورة البقرة : 197 وأشهر الحج هي شوال ذو القعدة ذو الحجة
10 = یوم عرفہ أيام معلومات میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قرآن میں تعریف کی ہے
قال الله عز وجل (لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ) [سورة الحج:28]. قال ابن عباس رضي الله عنهما : الأيام المعلومات عشر ذي الحجة
11 = یوم عرفہ ان أيام میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قسم اٹهائی ہے
جو ان ایام کے شرف وفضل کی دلیل ہے قال الله عز وجل وَلَيَالٍ عَشْرٍ [سورة الفجر:2]. قال ابن عباس رضي الله عنهما إنها عشر ذي الحجة قال ابن كثير وهو الصحيح
12 = یوم عرفہ میں الله تعالی بہت زیاده بندوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة. رواه مسلم في الصحيح
13 = یوم عرفہ میں الله تعالی فرشتوں کے سامنے میدان عرفات میں موجود لوگوں پر فخر کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء . رواه أحمد
14 = یوم عرفہ ہی حج کا رکن اعظم ہے قال النبي صلى الله عليه وسلم: (الحج عرفة) متفق عليه
15 = یوم عرفہ کی دعا کی انتہائی عظیم ومقبول دعا ہے
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم عرفہ کے دن یہ دعا بکثرت پڑهتے تهے لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال خير الدعاء دعاء يوم عرفة وخير ما قلت أنا والنبيون من قبلي لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . أخرجه الترمذي . وأخرجه أيضا من حديثه أحمد بإسناد رجاله ثقات ، ولفظه كان أكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . قال ابن عبد البر رحمه الله وفي ذلك دليل على فضل يوم عرفة على غيره .

والله تعالى أعلم هذا ما تيسر جمعه سائلا الله أن يتقبل منا ومن المسلمين أعمالهم وأن يجعلها خالصة لوجهه الكريم وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم تسليما كثيراً

Monday, June 20, 2016

سحری کھانا باعث برکت


قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : تسحروا فان في السحور بركة (متفق عليه)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سحری کھاو کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘ ۔ (بخاری و مسلم)
اس برکت کے بارے میں کئی اقوال مراد ہیں :جیسے اجر و ثواب پانا ، سویرے اٹھنا اور دعائیں کرنا ، اس وقت مانگنے والے مسکین کو صدقہ دینا یا کسی کو اپنے ساتھ ملا کر سحری کھلانا ،اس بد شکلی سے اپنے آپ کو بچانا جو شدت کی بھوک سے پیدا ہو جاتی ہے .
[فتح الباري 4/ 179/ تصرف کے ساتھ۔
حافظ ابن حجر نے کہا ابن دقیق العید نے کہا کہ:اس برکت میں یہ جائز ہے کہ یہ برکت اخروی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دنیوی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہو
[فتح الباري 4/ 179]
چناچہ جب انسان سحری کھائے گا تو وہ دن بھر چست رہے گااور اسے بھوک یا پیاس پریشان نہیں کرے گی اور اسے اللہ کی عبادت میں دل لگے گا ، اس کے بجائے اگر وہ سحری نہ کھائے اور دن بھر بھوک یا پیاس اسے پریشان کرتی رہے تو وہ روزہ کے وقت کے ختم ہو جانے کی تمنا کرے گا اور وہ اسی فکر میں لگا رہے گا کہ افطاری کا وقت کب آئے گا تاکہ میں اپنی پیاس بجھا سکوں اور اس طرح سے انسان اس عظیم عبادت کے ساتھ نفرت کرنے لگے لگا۔
اوریہ کہ سحری کھانا مسلمانوں اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق ہے : جیسا کہ عمرو بن العاص رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَ بَیْنَ صِیَامِ أَھْلِ الْکِتَابِ أَکْلَۃُ السَّحْرِ ))
[صحیح مسلم/حدیث نمبر :1096 ]
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں جو چیز فرق کرتی ہے وہ سحری کھانا ہے ‘‘
انس بن مالک رضي اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضي اللہ عنہ سے روایت کی اس نے کہا
(( تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلاۃِ قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَ الْأَذَانِ وَ السَّحُوْرِ ؟ قَالَ قَدْرُ خَمْسِیْنَ آیَۃً ))
[صحیح البخاري/حدیث نمبر : 1921]
’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی تو پھر وہ نماز کے لئے اٹھے (تیار ہوئے ) میں (انس) نے (زید سے) پوچھا کہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا ؟ کہا (اتنا جس میں انسان)پچاس آیات(تلاوت کرسکے اس )کے برابر ‘‘۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل آخری وقت میں سحری تناول فرماتے تھے اور ان کے صحابہ بھی ایسا ہی کرتے تھے، جیسا کہ سہل بن سعد رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہا
(( کُنْتُ أَتَسَحَّرُ فِيْ أَھْلِيْ ثُمَّ تَکُوْنُ سُرْعَتِيْ أَنْ أُدْرِکَ السُّجُوْدَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)) 
[صحیح البخاري/حدیث نمبر : 1920]
میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کھاتا تھا پھر میں اس لئے جلدی کرتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز ادا کر سکوں ‘‘ اس حدیث پر امام بخاری نے ((بَابُ تَأْخِیْرِ السَّحُوْرِ)) ’’ باب سحری کی تأخیر ‘‘ کے الفاظ میں باب باندھا ہے ، یعنی سحری میں تأخیر کرنی چاہئے،اور تب تک سحری بند نہیں کی جانی چاہئے جب تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے صاف واضح نہ ہو جائے
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
( وَکُلُوْا وَ اشْرَبُواحَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ)
[البقرۃ: 187]
’’ اور تب تک کھاؤ اور پیو جب تک کہ تمہیں صبح کاسفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے صاف ظاہر نہ ہو جائے ‘‘
تأخیر سے سحری تناول کرنا افضل ہے.
لہذا مسلمان کو اگر موقعہ ملے تو وہ بطور سحری کچھ نہ کچھ کھالے یا پی لے خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ۔


Monday, June 13, 2016

روزہ اور صلوۃ


 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ

002:183
‏ [جالندھری]‏ مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔ ‏
  تفسیر ابن كثیر
 روزہ اور صلوۃ

اللہ تعالٰی اس امت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزے کے معنی اللہ تعالٰی کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینےسے رک جانے کے ہیں اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ اخلاق سے انسان کا تنقیہ ہو جاتا ہے، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہےآیت ( لکل جعلنا منکم شرعتہ ومنھاجا) الخ یعنی ہر ایک کے لئے ایک طریقہ اور راستہ اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتا لیکن وہ تمہیں آزما رہا ہے تمہیں چاہئے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو، یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے، بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کر دیتے ہیں پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس الٰہی فریضہ کو بجا لائے ، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے ان شاءاللہ تعالیٰ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کر لیں، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا ، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر "قدنری" والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہو جاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے آیت اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں آیت قدقامت الصلوۃ بھی دو مرتبہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چنانچہ سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زید آچکے تھے ۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہو چکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں، روزوں کی تبدیلیاں سنئے اول جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالٰی نے آیت (کتب علیکم الصیام) الخ نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت (فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا بات؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کر لی اور حضور کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت (احل لکم لیلتہ الصیام الرفث الی نسائکم) سے (ثم اتموا الصیام الی الیل) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی، بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ آیت (وعلی الذین یطیقونہ) کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی، حضرت ابن عمر بھی اسے منسوخ کہتے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو، ابن ابی لیلیٰ، کہتے ہیں عطار رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کر دیا، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہو گا ہاں ایسے بوڑھے، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف ہے امام شافعی کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالٰی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، دوسرا قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے، مسند ابولیلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو گئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کر لیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں، بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھاہے فلحمد للہ (بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔)

Thursday, May 19, 2016

تلبینہ ایک مفید غذا ہے

تلبینہ کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے ، ان میں بخاری اور مسلم بھی ہیں۔ یہ ایک غذا ہے جو سوپ کی طرح ہوتا ہے، جو آٹے اور چھان سے بنایا جاتا ہے، بسا اوقات اس میں شہد ملایا جاتا ہے، اسے تلبینہ اس لئے کہتے ہیں کہ اسکا رنگ دودھ جیسا سفید اور دودھ ہی کی طرح پتلا ہوتا ہے۔بعض لوگ اسے جو کی کھیر بھی کہہ سکتے ہیں۔

طبی فوائد
طبی اعتبار سے اس کے متعدد فوائد بیان کئے جاتے ہیں ۔
یہ غذا غم ، مایوسی، کمردرد، خون میں ہیموگلوبن کی شدید کمی، پڑهنے والے بچوں میں حافظہ کی کمزوری، بهوک کی کمی، وزن کی کمی،کولیسٹرول کی زیادتی،ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر لیول کے اضافہ، امراض دل،انتڑیوں ،معدہ کے ورم ،السرکینسر،قوت مدافعت کی کمی،جسمانی کمزوری ،ذہنی امراض، دماغی امراض،جگر ، پٹھے کے اعصاب اور نڈھالی کے علاوہ دیگر بے شمار امراض میں مفید ہےاور یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جو میں دودھ سے زیادہ کیلشیم اور پالک سے زیادہ فولاد پایا جاتا ہےاس وجہ سے تلبینہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

تلبینہ سے متعلق چند احادیث دیکھیں
(1)عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ مِنْ أَهْلِهَا فَاجْتَمَعَ لِذَلِكَ النِّسَاءُ ، ثُمَّ تَفَرَّقْنَ إِلا أَهْلَهَا وَخَاصَّتَهَا ،أَمَرَتْ بِبُرْمَةٍ مِنْ تَلْبِينَةٍ فَطُبِخَتْ ، ثُمَّ صُنِعَ ثَرِيدٌ فَصُبَّتْ التَّلْبِينَةُ عَلَيْهَا ، ثُمَّ قَالَتْ : كُلْنَ مِنْهَا ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول :التَّلْبِينَةُ مُجِمَّةٌ لِفُؤَادِ الْمَرِيضِ ، تَذْهَبُ بِبَعْضِ الْحُزْنِ
(رواه البخاري:5101 و مسلم:2216 ) .
ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ اگر ان کے خاندان میں فوتیدگی ہو جاتی تو اس گھر میں خواتین جمع ہو کر [تعزیت کرتیں اور ]پھر اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتیں، صرف میت کے گھر والے اور انتہائی قریبی لوگ رہ جاتے، تو وہ تلبینہ [دلیہ] بنانے کا حکم کرتیں، تو دلیہ بنایا جاتا، اور پھر ثرید [چوری] بنا کر اس پر تلبینہ ڈال دیا جاتا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: اہل میت کی خواتین کو اس میں سے کھانے کا کہتی، اور انہیں بتلاتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: تلبینہ مریض کے دل کی ڈھارس باندھنے کیلئے اچھا ہے، اس سے غم میں کچھ کمی آتی ہے۔

(2)وعن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ تَأْمُرُ بِالتَّلْبِينِ لِلْمَرِيضِ وَلِلْمَحْزُونِ عَلَى الْهَالِكِ ، وَكَانَتْ تَقُولُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:إِنَّ التَّلْبِينَةَ تُجِمُّ فُؤَادَ الْمَرِيضِ ، وَتَذْهَبُ بِبَعْضِ الْحُزْنِ
(رواه البخاري :5365 و مسلم :2216 ) .
ترجمہ :حضرت عائشہ رضى اللہ عنها بیماروں اور ایسے افراد جو کسی میت کے غم سے دوچار ہوں، کو تلبینہ کهانے کی تلقین فرمایا کرتی تهیں اور فرمایا کرتیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تلبینہ مریض کے دل کو آرام دیتا ہے، اسے چست بناتا ہے اور اسکے غم اور دکھ کو دور کرتا ہے-

(3)كان إذا أخذ أهلَه الوَعَكُ أمر بالحساءِ فصُنِعَ ، ثمَّ أمرهم فحَسَوْا ، و كان يقول : إنَّهُ ليرتو فؤادَ الحزينِ ، و يَسْرُو عن فؤادِ السقيمِ ، كما تَسْرُو إحداكُنَّ الوسخَ بالماءِ عن وجهِها۔
(مشکوۃ)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا کہ اس کیلئے تلبینہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ تلبینہ بیمار کے دل سے غم کو اُتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو یوں اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کراس سے گندگی اُتار دیتا ہے۔
٭ شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔(صحیح الجامع : 4646)

(4) أنها كانت تأمُرُ بالتَّلبينَةِ وتقولُ : هو البَغيضُ النافعُ ۔( بخاری: 5690)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار کیلئے تلبینہ تیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگرچہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن وہ اس کیلئے ازحد مفید ہے۔

اس سلسلے میں بعض ضعیف روایات بھی ہیں مگر مذکورہ بالا ساری احادیث صحیح ہیں۔ اس تمام احادیث سے تلبینہ کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ، ابن القیم ؒ لکھتے ہیں کہ اگر تم تلبینہ کی فضیلت جاننا چاہتے ہو تو جوکا پانی (ماء الشعیر) کی فضیلت جان لو۔

ماءالشعیر اور تلبینہ میں فرق یہ ہے کہ ماءالشعیر میں جو مسلم پکایا جاتا ہے اور تلبینہ میں جو کا آٹا پکایا جاتا ہے اور تلبینہ ماءالشعیر سے زیادہ مفید ہے اس لیے کہ پیسنے کی وجہ سے جو کی خاصیت نمایاں ہوجاتی ہے۔

جدید طب کی روشنی میں متعدد فوائد کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، حدیث کی روشنی میں ایک اہم بات جو کہ صحیحین کی حدیث میں مذکور ہے وہ آپ ﷺ کا قول ”مجمتة لفواد المریض“جس کے معنی مریض کے لیے آرام دہ یعنی تلبینہ مریض کے دل کے لئے فرحت بخش ہے۔

کہا جاتا ہے کہ غم و حزن سے مزاج اور روح میں تبرید پیدا ہوتی ہے اور حرارت غریزی کو کمزور کردیتا ہے اس لئے کہ حرارت غریزی کی دوش بردار روح قلب کی جانب سے مائل ہوتی ہے جو روح کا منشا و مولد ہے اور یہ تلبینہ حرارت غریزہ کے مادہ میں اضافہ کرکے اس کو تقویت بخشتا ہے اس طرح سے غم و حزن کے اکثر اسباب و عوارض کو زائل کردیتا ہے۔

اور کسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض مفرح دوائیں ہوتی ہیں جن سے طبیعت خوش اور رنج و غم دور ہوجاتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے۔


واللہ اعلم

Tuesday, April 5, 2016

سورة النَّاس

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (1) مَلِكِ النَّاسِ (2) إِلَهِ النَّاسِ (3) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (6)
 کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں۔(یعنی) لوگوں کے حقیقی بادشاہ کی ۔لوگوں کے معبود برحق کی ۔ (شیطان) وسوسہ انداز کی برائی سے جو (خدا کا نام سن کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے ‏۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے ‏۔ (خواہ وہ) جنات سے (ہو) یا انسانوں میں سے ‏۔

تفسیر ابن كثیر

 خالق، پرورش کنندہ، مالک، حکمران، معبود حقیقی اور پناہ دہندہ٭٭
  
اس میں اللہ تعالٰی عزوجل کی تین صفتیں بیان ہؤی ہیں، پالنے اور پرورش کرنے کی، مالک اور شہنشاہ ہونے کی ، معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برت رصفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے۔ برائیوں اور بدکاریوں کو وب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے۔ صحیح حدیث شری میں ہے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالٰی نے اس پر میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجیھ صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی کہتا ہے۔ بخاری مسلم کی اور حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانی ایک واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں تھے تو ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا سنو!میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی (رضی اللہ تعالٰی عنہا) ہیں انہوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آپ نے فرمایا انس ان کے خون کے جاری ہنے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے، مجیھ خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے، حافظ ابویعلی موصلی رحمتہ اللہ نے ایک حدیث وارد کی ہے جس میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب تو اس کا ہاتھ ہٹ جاتا ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے، یہی وسواس الحناس ہے، یہ حدیث غریب ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم بسم اللہ کہو تو و گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کے برابر ہو جاتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم میں سے کؤی مسجد میں ہوتا ہے اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے جانور کو بہلاتا ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰعنہ نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا تم خود اسے دیکھتے ہو نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہوا اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو اور لگام والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں شیطان ابن آدم کے دل پر چنگل مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا، سلیمان فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ شیطان برائی سکھاتا ہے جاں انسان نے اسکی مان لی پھر ہٹ جاتا ہے، پھر فرمایا جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینے میں، لفظ ناس جو انسان کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے برجال من الجن کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ ناس میں داخل کر لینے میں کؤی قباحت نہیں، غرض یہ ہے کہ شیطان جنتا کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ اس کے بعد کے جملے من الجنتہ والناس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسواس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان جیسے اور جگہ ہے وکذالک جعلنا لکلک نبی وعداواً شیاطین الانس والجن یوحئی بعضھم الی بعض زخروف القول غرور یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمنی انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے کی باتیں بنا سنور کر ڈالتے رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا نماز بھی پڑھی؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت ادا کر لو۔ میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا اے ابوذر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسی چیز ہے، آپ نے ارشاد فرمایا بہترین چیز ہے ، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے، میں نے پوچھا روزہ؟ فرمایا کافی ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے۔ میں نے پھر پوچھا صدقہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا جائے گا۔ میں نے پھر عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سیچ ھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک کرنا، میں نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپ نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالٰی نے بات چیت کی، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول کتنے ہوئے؟ فرمایا تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت اور کبھی فرمایا تین سو پندرہ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی آیت کونسی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم الخ، یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابو حاتم بن حبان کی صحیح ابن حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بہت بڑی ہے، فا اللہ اعلم، مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے دل میں تو ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی زیادہ برا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی کے لئے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے۔

Thursday, March 10, 2016

استخارہ


کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تائیدِ غیبی سے حاصل کرنے کے لئے ادا کی جانے والی دو رکعت نماز کو نماز استخارہ کہتے ہیں۔

  قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے؛

  وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ
 اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسا رکھو۔

Al-i-Imran [3:165]

استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی صلى الله عليه وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے 
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔ 
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
 سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعاء میں نبی صلى الله عليه وسلم نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں :
استخارہ کی مسنون دعا

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ
اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ
وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ(بخاری،ترمذی)

دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔

استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے ۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے ۔           (اصلاحی خطبات)

استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضى الله تعالى عنه ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔(مظاہر حق)
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقع پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی مدت متعین نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔(رحمة اللہ الواسعة)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
 ”دعائے استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے ، استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتا ہے ، استخارہ سنت عمل ہے ، اس کی دعا مشہور ہے ،اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کرایا کرتے ہیں ،یہ کچھ نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلیے ہیں دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں دوسروں سے کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے“۔(مجالس مفتی اعظم )

Tuesday, March 1, 2016

آیۃ الکرسی

 
 بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔


آیۃ الکرسی


اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ، اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ، لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ، لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ، یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ، وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ٍٔ مِّنْ عِلْمَہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ، وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ، وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا، وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ (البقرۃ ۲۵۵)


اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہے (جس کو کبھی موت نہیں آسکتی) (ساری کائنات کو) سنبھالنے والاہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین وآسمان کی تمام چیزیں ہیں، کون شخص ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے ان (کائنات) کے تمام حاضر وغائب حالات کو ، وہ (کائنات) اُس کی منشا کے بغیرکسی چیز کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے، اُس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے، اﷲ تعالیٰ کو ان (زمین وآسمان) کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی، وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔


یہ سورۂ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے جو بڑی عظمت والی آیت ہے، اس آیت میں اﷲ تعالیٰ کی توحید اور بعض اہم صفات کا ذکر ہے۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ کی کرسی کا بھی ذکر آیا ہے جس کی وجہ سے اس آیت کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں وارد ہیں لیکن اختصار کے مدنظر یہاں صرف چند اہم فضیلتیں..جن کے صحیح ہونے پر جمہور علماء امت متفق ہیں۔

سب سے زیادہ عظمت والی آیت
حضرت ابی بن کعب ؓسے رسول اﷲ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتاب اﷲ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب میں فرمایا: اﷲ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی سوال کیا۔ بار بار سوال کرنے پر حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا: آیت الکرسی۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ کے سینے پر ہاتھ مارکر فرمایا: ابو المنذر! اﷲ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔ (مسلم، باب فضل سورۃ الکہف وآیۃ الکرسی،ح۸۱۰) مسند احمد میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اُس اﷲ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اِس (آیت الکرسی) کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی۔ (مسند احمد ۱۴۱/۵۔۱۴۲)

حضرت ابو ذر غفاریؓ کے سوال پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت‘ آیت الکرسی اَللّٰہُ لَا اِلٰہ اِلَّا ہُو الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ الخ .ہے۔ (مسند احمد ۱۷۸/۵، نسائی ح ۵۵۰۹)

دخول جنت کا سبب

حضرت ابو امامہ الباہلی ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے‘ اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے۔ (ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے، اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے)

شیاطین وجنات سے حفاظت
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رمضان میں وصول کی گئی زکاۃ کے مال پر پہرا دے رہا تھا، ایک آنے والا آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس کو ایسا کرنے سے بار بار منع فرمایا۔ اس آنے والے نے کہا کہ مجھے یہ کرنے دو، میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اگر تو رات کو بستر میں جاکر ان کو پڑھ لے گا تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا اور وہ آیت الکرسی ہے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے فرمایاکہ اس نے سچ کہا مگر وہ خود جھوٹا ہے اور وہ شیطان ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوکالہ، باب اذا وکل رجلا فترک الوکیل شیئا،،، ح ۲۳۱۱، ۳۲۷۵، ۵۰۱۰)

حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ کھجوریں تھیں جو روزانہ گھٹ رہی تھیں، ایک رات میں نے پہرا دیا۔ میں نے دیکھاکہ ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا،میں نے اس کو سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں۔ میں نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ دو۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھادیا ۔ میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے بال بھی تھے۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا کہ تم صدقہ کو پسند کرتے ہو اور میں تمہارے مال کو لینے آیا ہوں تاکہ تم صدقہ نہ کرسکو۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے شر سے بچنے کی کوئی تدبیر ہے؟ اس نے کہا: آیت الکرسی ، جو شخص شام کو پڑھ لے وہ صبح تک اور جو صبح کو پڑھ لے وہ شام تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خبیث نے یہ بات بالکل سچی کہی ہے۔ (نسائی، طبرانی۔۔ الترغیب والترہیب ۶۶۲)

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا بھی احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ غرض آیت الکرسی کے ذریعہ جنات وشیاطین سے حفاظت کے متعدد واقعات صحابہ کے درمیان پیش آئے۔ (تفسیر ابن کثیر)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ المؤمن کو حٰمٓسے الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا‘ وہ شام تک اﷲ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی سورہ البقرہ وآیہ الکرسی ج ۲۸۷۹)

آیت الکرسی اسم اعظم پر مشتمل

حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اِن دونوں آیتوں میں اﷲ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ایک تو آیت الکرسی اور دوسری آیت الٓمّ ٓ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ (مسند احمد۴۶۱/۶، ابوداؤد، کتاب الوتر، باب الدعاء ح ۱۴۹۶، ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی ایجاب الدعاء بتقدیم الحمد ح ۳۴۷۸، ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب اسم اﷲ الاعظم ج ۳۸۵۵)

حضرت ابوامامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اﷲ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے، وہ تین سورتوں میں ہے سورۂ البقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہ۔ (ابن ماجہ، کتاب الدعا،، باب اسم اﷲ الاعظم ح ۳۸۵۵)
وضاحت: سورۂ البقرہ میں آیت نمبر ۲۵۵، سورۂ آل عمران میں آیت نمبر ۲ اور سورۂ طہ میں آیت نمبر ۱۱۱ہے۔

آیت الکرسی چوتھائی قرآن

حضور اکرم ﷺ نے آیت الکرسی کو چوتھائی قرآن کہا ہے۔ (مسند احمد ۲۲۱/۳، ترمذی کتاب فضائل القرآن،باب ما جاء فی اذا زلزلت، ح ۲۸۹۵)


مفہوم آیۃ الکرسی: اس توحید کی اہم آیت میں ۱۰ جملے ہیں


اَللّٰہُ لَآ اِلٰہ اِلَّا ہُوَ: یہی وہ پیغام ہے جس کی دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اﷲ تبارک وتعالیٰ ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا اور وہی اس پوری دنیا کے نظام کو تنہے تنہا چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اس نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل بھیجے۔ آخر میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت للعالمین بناکر بھیجا۔

اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ: لفظ حَیُّ کے معنی ہیں زندہ یعنی اﷲ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور وہ موت سے بالا تر ہے۔ کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ،،، کُلُّ مَنْ عَلیْہَا فَانٍ، وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاکْرَامِ اﷲ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ قَیُّوْمُ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کے قیام وبقا کا واسطہ اور ذریعہ ہو۔

نوٹ: قیوم اﷲ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی، کیونکہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقا میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں۔ اس لئے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز نہیں ہے۔ لہذا عبدالقیوم نامی شخص کو صرف قیوم کہہ کر پکارنا غلط ہے۔

لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ: سِنَۃٌکے معنی اونگھ اور نَوْمٌ کے معنی نیند کے ہیں۔ ان دونوں کی نفی سے نیند کی ابتدا اور انتہا دونوں کی نفی ہوگئی یعنی اﷲ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے کمال درجہ پاک ہے۔

لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ: تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں وہ سب اﷲ تعالیٰ کی مملوک ہیں، وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف کرے۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ: جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اﷲ تعالیٰ ہی کائنات کا مالک ہے ، کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں ہے تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں بازپرس کرنے کابھی حق دار نہیں ہے ، وہ جو حکم جاری فرمائے اس میں کسی کو چون وچرا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اﷲ تبارک وتعالیٰ سے کسی کی سفارش یا شفاعت کرے، سو اس کو بھی واضح کردیا کہ اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اﷲ تعالیٰ کے نیک ومقبول بندے بھی کسی کے لئے شفاعت نہیں کرسکتے ہیں۔

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروں گا،یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی کا نام مقام محمود ہے، جس کا ذکر سورۂ الاسراء ۷۹ میں آیا ہے عَسَی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً ۔ نبی اکرم ﷺ کی عام امتیوں کی شفاعت کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کو بھی تین شرطیں پائی جانے پر دوسروں کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی۔


۱) جسکے لئے شفاعت کی جارہی ہے اس سے اﷲ تعالیٰ کی رضامندی ہو، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ (سورۂ الانبیاء ۲۸) وہ کسی کی بھی شفاعت نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اﷲ خوش ہو اور وہ اسکی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔


۲) شفاعت کرنے والے سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَن یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَن یَّشَاءُ وَےَرْضَی


(سورۂ النجم ۲۶) 

۳) اﷲ تعالیٰ شفاعت کرنے والے کو شفاعت کی اجازت دے۔ سورہ النجم کی آیت میں اَن ےَّاْذَنَ اللّٰہُ اور آیت الکرسی میں اِلَّا بِاِذْنِہٖ سے یہ شرط واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح سورۂ یونس آیت ۳ میں ہے : مَا مِنْ شَفِیْع ٍالَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِہٖاس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں۔

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ: اﷲ تعالیٰ لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات وواقعات سے واقف ہے۔ آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات وواقعات اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات وحالات ہوں تو معنی یہ ہوں گے انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض چیزوں پر نہیں، کچھ چیزیں اس کے سامنے کھلی ہوئی ہیں اور کچھ چھپی ہوئی ، مگر اﷲ تبارک وتعالیٰ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں، اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے ۔

وَلَا یُحِیطُوْنَ بِشَیٍٔ مِّنْ عِلْمَہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآء: انسان اور تمام مخلوقات اﷲ تعالیٰ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، مگر اﷲ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصہ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں بتلادیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اﷲ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی صفت ہے، انسان یا کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔

وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ: یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ جس کی وسعت کے اندرساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نشست وبرخاست اور حیزومکان سے بالا تر ہے، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے، اس کی کیفیت وحقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے بروایت حضرت ابو ذر غفاریؓ نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ڈال دیا جائے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ عرش کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہے کہ جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ۔

کرسی سے مراد حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے علم منقول ہے، بعض حضرات سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کا اندازہ بجز باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔ ابو مالکؒ فرماتے ہیں کہ کرسی عرش کے نیچے ہے۔ سدیؒ کہتے ہیں کہ آسمان وزمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلادئے جائیں تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ (چھلّہ) کسی چٹیل میدان میں۔ ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں۔ (تفسیر بن کثیر) بعض مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اﷲ کا اقتدار آسمانوں اور زمین کے تمام اطراف واکناف پر حاوی ہے، کوئی گوشہ اور کونہ بھی اس کے دائرہ اقتدار سے الگ نہیں ہے۔

وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا:اﷲ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات یعنی آسمان وزمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔ یَئُودکے معنی ہیں کسی چیز کا ایسا بھاری اور گراں ہونا کہ اس کا سنبھالنا مشکل ہوجائے۔

وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ: گزشتہ نو جملوں میں اﷲ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان کئے گئے، ان کو سمجھنے کے بعد ہر عقل مند شخص یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت وعظمت اور بلندی وبرتری کا مستحق وہی پاک ذات ہے۔

ان دس جملوں میں اﷲ جل شانہ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو شرک کی تمام شکلوں سے محفوظ فرمائے، آمین، ثم آمین۔