Pages

Friday, February 25, 2011

ہار جیت کا اصل دن

انسان کو اس دنیا میں عقل اور ارادہ و اختیار کی قوت اس لیے دی گئی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی

جائے۔ ارشادِ بار تعالیٰ ہے

’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘

( الملک ٢:٦٧ )

اُس کے سامنے زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں۔

ایک اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری

اور دوسرا نافرمانی کا راستہ ہے۔

اس امتحان میں صراطِ مستقیم کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔

جن میں سے تین اہم ہیں

۱۔
ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز اور قرآن حکیم کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر انسان کے شعور میں یہ حقیقت اچھی

طرح بٹھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں بلکہ اس کا پیدا کرنے والا، پالنے والا اور اس کا انتظام چلانے والا موجود ہے۔ اسی لیے

انسان ہمیشہ توحید کے سوال سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ بڑے سے بڑا ملحد بھی کسی نہ کسی موقع پر اپنے دل میں پروردگار کے وجود کی

گواہی ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح بڑے سے بڑا مشرک بھی بسا اوقات یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسبب الاسباب صرف ایک ہی ذات ہے باقی کسی کی

کوئی حیثیت نہیں۔ پھر اس کے ساتھ اُس کے اردگرد بے شمار ایسی نشانیاں پھیلا دی گئی ہیں جن پر معمولی سا غور و فکر کر کے بھی وہ اس

نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتا۔

۲۔

دوسری حیرت انگیز چیز ہر انسان کے قلب میں موجود ہے۔ جب بھی انسان غلط کام کرتا ہے تو اس کے قلب کے

اندر سے آواز اسی ٹوکتی ہے کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا اور انسان کو ندامت محسوس ہوتی ہے۔ اسے ہم ’ضمیر‘ کہتے ہیں اور قرآن

اسے ’نفسِ لوامہ‘

کہتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اس لیے انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق محسوس کر سکے۔

۳۔
انبیا اور ان کے ذریعے کتب بھیجیں۔ ان میں سے آخری کتاب قرآن حکیم زندہ معجزہ اپنی اصل شکل میں قیامت تک

راہنمائی کے لیے موجود ہے۔

اس دنیا میں صحت بیماری، خوشحالی، غربت تمام چیزیں صرف اور صرف امتحان کے لیے ہیں۔ ہر انسان کو مختلف حالات میں ڈال کر اسے

آزمایا جا رہا ہے۔ لیکن ایک دن آئے گا جب اس امتحان کا وقت ختم ہو جائے گا۔ اس دن زمین اور اس پوری کائنات کے قوانین بدل دیے جائیں

گے۔ وہی دن قیامت کا دن ہو گا۔ اس کے بعد ہر انسان سے حساب کتاب ہو گا۔ اگر وہ دنیا میں شکر گزار بندہ بن کر رہا ہو گا تو اسے جنت کی

صورت میں ابدی انعامات ملیں گے اور اگر اس نے بغاوت کی زندگی بسر کی ہو گی تو اسے سزا دی جائے گی اور جہنم کی شکل میں برا انجام

اس کا منتظر ہو گا۔

موجودہ دنیا کی چیزوں کو جو لوگ ذاتی چیزیں سمجھ کر اس میں بے روک ٹوک تصرف کر رہے ہیں ان کا حال آخرت میں وہی ہو گا جو

کسی بنک کے اُس اکائونٹنٹ کا ہوتا ہے جو بنک کی الماری میں بھرے ہوئے نوٹوں کو اپنی ذاتی چیز سمجھ لے۔

قیامت کے عقلی دلائل


اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جوڑوں کی شکل میں بنائی ہے لیکن یہ ایک ہی حقیقت کے دو اجزا ہوتے ہیں اور

دونوں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر ایک حصہ میں کوئی کمی یا خلا ہوتا ہے تو دوسرے حصے سے پُر ہو جاتا ہے۔ مثلاً مرد

و عورت، پیاس پانی وغیرہ۔ اگر پیاس نہ ہوتی تو پانی کا وجود بے معنی تھا لیکن اگر پیاس موجود ہے تو اسے محسوس کرنے والا ہر عاقل

پکار اٹھے گا کہ پانی کا وجود بھی ہونا چاہیے۔ یہی معاملہ زندگی کے ان دو اجزا دنیا اور آخرت کا ہے۔ یہ دنیا پکار پکار کر ہمیں متوجہ کر

رہی ہے کہ یہ نامکمل ہے۔ اس دنیا میں انسان کی زندگی پر غور کریں۔ انسان مرنا نہیں چاہتا، ابدی زندگی اس کا سب سے بڑا خواب ہے۔ مگر

موت اس دنیا کی سب سے بڑی اٹل حقیقت ہے۔ گویا پیاس تو موجود ہے مگر پانی نہیں۔


اس دنیا میں انسان سب سے بڑھ کر ظلم سے نفرت کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ظالم کو اس کے کیے کی پوری

سزا ملے۔ یہاں دولت و قوت کے نشے میں فرعون اور ہٹلر جیسے حکمران ہزاروں لاکھوں انسانوں پر ہی ظلم کا باعث نہیں بنتے بلکہ ان کے

اثرات ان کی نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مگر یہ بھی اس دنیا کا عجیب سلسلہ ہے کہ اوّل تو بڑے مجرم گرفت میں آتے ہی نہیں اور اگر آ بھی

جائیں تو ان کو جرم کی مناسبت سے سزا ہی نہیں دی جا سکتی۔ گویا اس دنیا کی زندگی کا ہر معاملہ پکار پکار کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ

تمام اور ناقص ہے اس کا ایک ایسا جوڑا ہونا چاہیے جہاں ابدی زندگی ہو۔ جہاں ظلم کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے۔ چنانچہ قرآن کریم ہمیں

بتاتا ہے کہ جس طرح ہر چیز جوڑا جوڑا ہے اسی طرح اس دنیا کا جوڑ آخرت ہے گویا زندگی کے دو رُخ ہیں ایک عارضی اور ایک ابدی۔

عارضی زندگی کی ساری تنمائیں ابدی زندگی میں جا کر پوری ہو جاتی ہیں۔


قیامت کا آنا خدا کی صفت رحمت کا لازمی تقاضہ ہے اگر قیامت نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کائنات کا خالق

رحمٰن و رحیم نہیں

ہے۔ اِس کے نزدیک نعوذ باللہ عدل و ظلم، نیکی بدی، خیرو شر دونوں یکساں ہیں بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو من مانیاں کرنے کے

لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ یہ باتیں چونکہ بالکل غلط ہیں۔ رحمٰن و رحیم خدا کی شان کے بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بے مقصد

کام کرے اس لیے لازم ہے وہ ایک ایسا دن لائے جس میں اپنے نیک بندوں کو وہ لازوال رحمتوں سے نوازے اور بدکار اپنے برے انجام کو

پہنچیں۔


جس نے انسان کے لیے زندگی اور پرورش کا یہ بہترین نظام قائم قائم کیا ہے کیا محض اس لیے کہ وہ کھائے پئے اور ایک

دن ختم ہو جائے؟ کیا ان صلاحیتوں سے متعلق اس پر کوئی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی؟ کیا جس نے اس قدر اہتمام سے اس کو وجود بخشا، اس

کا کوئی حق اس پر قائم نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ ایک دن اس حق کے بارے میں اس سے پوچھ ہو جنھوں نے اس کو پہچانا ہو وہ اس کا انعام

پائیں اور جنھوں نے اس کی ناقدری کی ہو وہ سزا بھگتیں۔


ضمیر کی صورت میں گویا قیامت کی عدالت کا عکس ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اگر قیامت نہ ہو تو پھر ضمیر کا

وجود بے معنی تھا۔ یہی ضمیر انسان کو ہر وقت یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ نیکی و بدی برابر نہیں ہیں اس لیے نتیجے کے اعتبار سے بھی

انھیں برابر نہیں ہونا چاہیے۔


ٹی وی پر کوئی فلم چل رہی ہو اور اچانک سلسلہ منقطع کر کے یہ کہہ دیا جائے کہ فلم ختم ہو گئی تو دیکھنے والوں میں

سے کوئی شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ کہانی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے فلم کیوں کر ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ مصنف سے یہ

سب توقع رکھتے ہیں کہ وہ کہانی کو اختتام تک پہنچائے اور کہانی کے کرداروں کا حساب بے باق کر دے۔ تو کیا کوئی ذی عقل یہ باور کر

سکتا ہے کہ زندگی کی داستان جس کا خالق اللہ ہے موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے جبکہ ابھی کہانی مکمل نہیں ہوئی اور کسی کا حساب نہیں

چکایا گیا۔


کسی دفتر میں ایک محنتی اور ایک نکمے کارکن کو یکساں ترقی دی جائے تو ہم اس بے انصافی پر چیخ اٹھتے

ہیں۔ تو کیا جس نے انصاف کی یہ خواہش ہمارے اندر ھکی ہے وہ خود ہی انصاف نہ کرے گا؟ یہ ناممکن ہے۔


قیامت کے انکار کی دوسری وجہ اللہ کی قدرتوں کے بارے میں بدگمانی ہے کہ یہ اتنا عظیم الشان واقعہ کیسے ہو سکتا ہے۔

قرآن میں عموماً قیامت کے ذکر کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ انسان کو اس دنیا کی چیزوں میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد

دیکھے کہ کیسے مردہ زمین بے رنگ پانی کے آسمان سے برسنے پر لہلہاتے ہوئے کھیتوں، خوشبو دار پھولوں، لذیذ پھلوں اور آسمان سے

باتیں کرتے درختوں سے بھر جاتی ہے۔ کیسے اللہ نے مویشیوں کے پیٹ میں سے گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دوھ اس کے لیے

تخلیق کیا ہے۔ کیسے طرح طرح کے ذائقوں کے ساتھ کیسی کیسی نفیس پیکنگ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پھل، سبزیاں، اناج تخلیق کیے

ہیں۔ پھر کیسے خود اس کی ذات ایک عظیم معجزہ ہے۔ دو قطروں سے کیسے نو ماہ ماں کے رحم میں اس کا بننا، گوناگوں صلاحیتوں کے

ساتھ اس دنیا میں آنا پھر مرد و عورت کی شکل میں ایک دوسرے کے لیے بہترین ساتھی کا وجود میں آنا ایک عظیم نشانی ہے۔

کسی جادوگر کی چھڑی سے ایک پتھر کوئی آواز نکالے تو اس کو دیکھ کر لوگ حیران رہ جائیں گے مگر خدا بے شمار انسانوں کی دو قطروں

سے ابتدا کر کے کیسی حسین شکل میں کھڑا کر دیتا ہے اور وہ نہایت بامعنی الفاظ میں بول رہے ہیں مگر اس کو دیکھ کر کسی پر کوئی حیرت

طاری نہیں ہوتی۔ خدا کی ہر تخلیق نہایت عجیب ہے مگر چونکہ انسان ان کو برابر دیکھتا رہتا ہے لہٰذا ان کا عجوبہ پن اس کی نظر میں ختم

ہو جاتا ہے۔ انھیں چیزوں میں سے کسی کو بھی اچانک ایک روز آپ پوری توجہ سے دیکھیں تو آپ ایسی حیرت میں ڈوبیں گے کہ خود ہی

چلا اُٹھیں گے کہ بے شک دوبارہ پیدا کرنا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ سب سے ضروری چیز سبق لینے کا مزاج ہے جس شخص کے

اندر یہ مزاج پیدا ہو جائے اس کے لیے دنیا ایک زندہ کتاب بن جائے گی جس پر غور و فکر روزانہ اس کے ایمان میں اضافہ، خالق سے قریب

کرنے اور یقین کی بڑھوتری کا باعث بنے گا۔

قیامت کے منکر کسی دلیل سے انکار نہیں کر سکتے وہ صرف اس لیے نہیں ماننا چاہتے کہ اس طرح انھیں اپنی زندگی پر کچھ پابندیاں لگانا

پڑتی ہیں جو انھیں گوارہ نہیں چاہے ابدی جہنم میں جلنے کا خطرہ ہی کیوں نہ مول لینا پڑے۔ حالانکہ مثبت سوچیئے تو ہم ایک لافانی عیش

بھری زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔

بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اگر اسے کہا جائے کہ تیری اس تنگ اور محدود دنیا سے باہر ایک بڑی وسیع

اور خوبصورت دنیا آباد ہے تو وہ کہے گا یہ ناممکن ہے۔ لازم ہے کہ آپ اس کے اس جواب پر ہنس کر کہیں گے کہ یہ ابھی کم عقل ہے، اس

لیے کہ اس کی محدود عقل لامحدود کائنات کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ اس دنیا میں آنے پر اسے خود محسوس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اس سے

پہلے قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا جس کا اس دنیا سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن جب اسے بتلایا جاتا ہے کہ ایک دن یہ جسم بھی فنا ہو کر

مٹی میں مل جائے گا اس کے بعد اخروی زندگی پیش آئے گی۔ اُس دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں یہ دنیا بالکل تنگ و تاریک اور قید و بند

سے بھرپور ہے۔ تو وہ پھر اپنی کم عقلی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ باتیں ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔

لوگ دنیا کو ہار جیت کی جگہ سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا کی ہار جیت بالکل بے معنی ہے، ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’جس دن تم سب کو ایک جمع ہونے کے دن جمع کرے گا یہی دن ہے ہار جیت کا۔‘‘

( التغابن ٩:٦٤ )

جو مرا اس کی قیامت آگئی۔ قیامت کے دن اس فاصلہ کا کسی کو احساس نہ ہو گا۔ یعنی ہر شخص کی قیامت میں بس

اتنے ہی دن ہیں جس قدر اس کی زندگی باقی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی رات آپ سوئیں یا راہ چلتے ہوئے کوئی حادثہ ہو اور آنکھ حشر کی صبح

کھلے۔

وہ دن جس کی ہولناکی سے تمام انبیا علیہ السلام خبردار کرنے آئے۔ اس دن انسانوں کے انفرادی اعمال کا ہی کا نہیں بلکہ ان کے ذریعے جو

خیر و شر جہاں جہاں پھیلا اس سب کا انھیں بدلہ ملے گا۔ اسی لیے ایک صحابی فرماتے تھے ’بدبخت ہے وہ جس کا گناہ اس کے ساتھ نہ مرے۔


قیامت کی ہولناکی قرآن میں

’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس مہینے کی

حاملہ اونٹیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں

گے اور جب جانیں جسموں سے جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی اور

جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے

گی اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘

( التکویر ١٤:١:٨١ )

’’اور جب صور پھونکا جائے گا سو تمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اُڑ جائیں گے مگر جس کو خدا چاہے پھر دوسری

دفعہ ﴿صور﴾ پھونکا جائے گا تو فوراً سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور ﴿سب کا﴾

اعمال نامہ ﴿ہر ایک کے سامنے﴾ رکھ دیا جائے گا۔ اور پیغمبر اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور سب میں ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جائے گا

اور ان پر ذرا ظلم نہ ہو گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ سب کے کاموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘

( الزمر 70- 68:39 )

’’مجرم تمنا کرے گا کہ کاش اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو اور اپنے کنبے کو ﴿جو وقت

پڑنے پر﴾ اس کو پناہ دیا کرتا تھا اور تمام ﴿آدمی﴾ جو زمین میں ہیں ﴿سب کو﴾ فدیے میں دے دے، پھر، ﴿یہ فدیہ﴾ اسے ﴿عذاب سے﴾ نجات دلا

دے۔‘‘

(المعارج 14-11:70)

’’اس دن ظالم انسان ﴿مارے افسوس کے﴾ اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا ﴿اور﴾ کہے گا: ’کاش میں ﴿بھی﴾ رسول صلی اللہ علیہ

وسلم کے ساتھ ﴿دین کی﴾ راہ پکڑ لیتا۔ ہائے میری کم بختی کاش میں نے فلاں ﴿شخص﴾ کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس ﴿کم بخت﴾ نے میرے پاس

آئی ہوئی نصیحت سے مجھے بہکا دیا۔‘ اور شیطان ﴿کا تو قاعدہ ہے کہ وقت پڑے تو﴾ انسان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے اور ﴿اس وقت﴾

رسول کہے گا۔ ’’اے میرے رب میری ﴿اس﴾ قوم نے قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا۔‘‘

( الفرقان 30 27:25)

لوگو﴾ ہم نے تمھیں قیامت ﴿کے عذاب﴾ سے خبردار کر دیا ہے جو قریب ہے۔ اس دن آدمی اس ﴿کمائی﴾ کو دیکھ لے گا جو اس

کے ہاتھوں نے

زاد آخرت بنا کر

آگے بھیجی ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا
۔‘‘
( النبا 40:78 )

قیامت کی ہولناکی احادیث میں

’’اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے دن سے لے کر موت کے دن تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے سجدہ میں پڑا

رہے تو قیامت کے دن اپنے اس عمل کو بھی وہ حقیر سمجھے گا۔‘‘ ﴿مسند احمد﴾ یعنی قیامت کی ہولناکی دیکھنے پر نیک ترین انسان بھی

سمجھے گا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔

’’اگر تم وہ باتیں جانتے ہو جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ اور اللہ سے نالہ و فریاد اور

گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔‘‘ ﴿مسند احمد﴾ اس حدیث کو بیان کرنے والے صحابی فرماتے ہیں: ’’کاش

میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔‘‘ یعنی حساب نہ دینا ہوتا۔

’’قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک ﴿اپنی جگہ سے﴾ ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں

سوال نہ کر لیا جائے۔

:1
عمر کن کاموں میں گزاری؟

:2
جوانی کی توانائیاں کن کاموں میں لگائیں؟

:3
مال کہاں سے کمایا؟

:4
حاصل شدہ مال کہاں اور کیسے خرچ کیا؟

:5
جو علم اسے حاصل ہوا اس پر اس نے کس حد تک عمل کیا؟ ‘‘

( ترمذی )

’’جس آدمی نے مال جمع کیا اور اس کی زکوٰة ادا نہ کی۔ اس کا جمع شدہ مال روزِ قیامت ایک ایسے سانپ کی شکل میں

سامنے آئے گا جس کے سر کے بال کثرتِ زہر کی وجہ سے ختم ہو چکے ہوں گے وہ منہ کھولے مالک کے پیچھے بھاگتا ہوا پہنچے گا۔ مال

والا اسے دیکھتے ہی بھاگ کھڑا ہو گا۔ سانپ پکار کر کہے گا اپنا چھپایا ہوا خزانہ لےلو، مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ جب مال والے کو

یقین ہو جائے گا کہ اب جان نہیں چھوٹتی تو اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا۔ چنانچہ سانپ بپھرے ہوئے اونٹ کی طرح اس کا ہاتھ کو

چبا جائے گا۔‘‘

( مسلم )

میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکوٰة کے

ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہو گا اور اسی کے ساتھ اس

نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال مار کھایا ہو گا، کسی کو قتل کیا ہو گا، کسی کو ناحق مارا ہو

گا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی

غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘

( مسلم )

قیامت کے دِن کے گواہ

زمین کی گواہی: ’’﴿زمین﴾ ہر بندہ اور بندی کے متعلق شہادت دے گی کہ اس نے فلاں دن میرے اوپر فلاں کام کیا تھا۔‘‘

( مسند احمد )

جسمانی اعضا کی گواہی: ’’آج ہم ان کے منہ پر مہر لگائے دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور ان کے

پائوں بھی گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ﴿دنیا میں﴾ کیا کچھ کرتے رہے۔‘‘

( یس ٦٥:٣٦ )

فرشتوں کی گواہی: ’’دو ضبط کرنے والے ﴿فرشتے اس کے﴾ دائیں اور بائیں بیٹھے ﴿اس کی باتیں﴾ ضبط ﴿تحریر﴾ کرتے

رہتے ہیں۔ وہ کوئی بات منہ سے نکالنے نہیں پاتا مگر اس کے پاس ایک حاضر باش نگران ﴿فرشتہ لکھنے کو تیار رہتا﴾ ہے۔‘‘

( ق 18-17:50 )

اعمال نامہ کی گواہی: اور آدمی اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر کہے گا: ’’یہ کیسی کتاب ہے میرا چھوٹا بڑا کوئی

عمل ایسا نہیں ہے جو اِس نے محفوظ نہ کر لیا ہو۔‘‘

( الکہف 49:18 )

آخری انجام

’’پھر جب ﴿قیامت کا﴾ ہنگامہ عظیم برپا ہو گا اور جو کچھ آدمی نے ﴿دنیا میں﴾ کیا تھا اس دن وہ اس کو یاد کرے گا اور دوزخ

ہر دیکھنے والے کے سامنے بے نقاب کر دی جائے گی۔ تو جس نے ﴿دنیا میں﴾ سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ﴿آخرت پر﴾ ترجیح دی

تھی اس کا ٹھکانہ تو بس دوزخ ﴿ہی ہو گی﴾۔ اور جو اپنے رب کے سامنے پیشی سے ڈرا تھا اور ﴿اپنے﴾ نفس کو ﴿بری﴾ خواہشات سے روکتا

رہا تھا تو بلاشبہ جنت اس کا ٹھکانہ ﴿ہو گی﴾‘‘۔

( النازعات 41-34:79 )

عقیدہ شفاعت

احادیث کے مطابق
قیامت کے دن انبیا، صالحین بلکہ بعض اعمال صالحہ بھی شفاعت کریں گے مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ قیامت میں یہ شفاعت کس اصول پر

ہو گی اور کن کے لیے ہو گی۔ شفاعت کے بارے میں یہ بات اصولی طور پر جان لینی چاہیے کہ اس کی حیثیت دعا، التجا اور درخواست کی

ہے۔ قرآن میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:

’’کون ہے جو اس کی بارگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کی سفارش کر سکے۔‘‘

( البقرة 255:2 )

’’اور وہ نہیں سفارش کر سکیں گے مگر صرف اس کے لیے، جس کے لیے اُس کی رضا ہو۔‘‘

( الانبیا 28:21 )

’’﴿اُس روز﴾ ظالموں کا کوئی دوست نہ ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔‘‘

( المومن 18:40 )

یعنی کوئی خود آگے بڑھ کر سفارش نہ کر سکے گا اور نہ ایسا ہے کہ خدا ان کی ناز برداری میں لازماً ان کی سفارش

قبول فرمائے گا اور نہ کسی کا زور اثر کام آئے گا۔ شفاعت قرآن کے بیان کردہ قانون کے مطابق اللہ کی مرضی اور رضا مندی سے ہو گی۔ یہ

حق کو باطل اور باطل کو حق نہیں بنا سکے گی۔ یہ دراصل شفاعت کرنے والوں کی عظمت و مقبولیت کے اظہار کے لیے اور ان کے اعزاز

کے لیے ہو گی، ورنہ حق تعالیٰ کے کاموں اور اس کے فیصلوں میں دخل دینے کی کسے مجال ہے۔

اور یہ اُن لوگوں کے بارے میں ہو گی جنھوں نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو مقصد بنا کر تمام عمر گزاری ہو

گی۔ لیکن پھر بھی بعض کمزوریوں ور گناہوں کے باعث وہ جنت کے مطلوب معیار سے کچھ کم رہ گئے ہوں گے۔ انبیا علیہم السلام، صدیقین،

شہدا اور صالحین کی شفاعت سے امید ہے کہ یہ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔

وَاللہ علم!

شفاعت سے محروم لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عمدگی سے احادیث میں بیان فرمایا ہے:

’’کچھ لوگ ﴿روز قیامت﴾ میرے پاس آئیں گے میں انھیں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے لیکن انھیں میرے پاس آنے سے روک دیا

جائے گا تو میں کہوں گا یہ میرے امتی ہیں ﴿انھیں مجھ تک آنے دو﴾ تو جواب میں مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں

جانتے کہ انھوں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین میں کتنی بدعتیں داخل کر دی تھیں تو میں کہوں گا دوری ہو، دوری ہو ان لوگوں کے

لیے جنھوں نے میرے بعد دین کے نقشہ کو بدل ڈالا۔‘‘

( متفق علیہ)

مالِ غنیمت کی چوری کے مسئلہ کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پائوں کہ اس کی گردن پر اونٹ ہے جو زور سے بلبلا رہا ہے ﴿یہ اس نے دنیا میں

چوری کیا تھا﴾ اور یہ شخص کہہ رہا ہے کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمائیے ﴿یعنی اس گناہ کے وبال سے بچائیے﴾

تو میں کہوں گا میں تیری کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا میں نے تو تجھے دنیا میں یہ بات پہنچا دی تھی۔‘‘

( مسلم )

رہے وہ اہلِ ایمان جن کے اعمال صالحہ کا ذخیرہ اس سے بھی کم ہو گا وہ جہنم میں نامعلوم کتنی مدت عذاب سہہ کر

جنت میں داخل کر دیے جائیں گے۔ وہ جہنم جس میں ایک لمحہ دنیا کی تمام عیش بھلا دینے کے لیے کافی ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور

حضرت آسیہ کا شوہر قرآنِ مجید کے مطابق جہنمی ہیں۔ باپ بیٹے اور میاں بیوی کے رشتے سب سے زیادہ محبوب رشتے ہیں اور پیغمبروں

سے زیادہ خدا کا کوئی نہیں ہو سکتا لیکن جن کے پاس ایمان و نیکی کا توشتہ موجود نہیں تھا وہ ان رشتوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے تو

دوسروں کو کیا نسبت۔

اُخروی زندگی کا دَوام

آخرت کے سلسلہ میں ایک خاص طور پر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ آخرت پر صرف ایمان ہی نہیں رکھنا بلکہ اس

حقیقت کو پوری طرح ذہن نشین کرنا ہے کہ جو زندگی آخرت میں ملے گی وہ پھر کبھی ختم نہ ہو گی۔ بار بار یاد کرنا چاہیے کہ آخرت کی

زندگی انجام سے ناآشنا ہو گی۔ وہاں موت کا کوئی وجود نہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے اس دنیا میں اگر مسرت کا کوئی لمحہ آبھی

جاتا ہے تو بسا اوقات دل میں یہ کانٹا کھٹک رہا ہوتا ہے کہ کل کیا ہو گا لیکن وہاں اگر کامیاب ہو گئے تو نہ ماضی کے پچھتاوے ہوں گے

اور نہ مستقل کے اندیشے۔ اور وہاں کا عذاب خدا محفوظ رکھے ناقابلِ برداشت ہو گا۔ اس حقیقت کو بار بار، بار بار، بار بار دل و دماغ میں

ذہن نشین کرنے کی کوشش جاری رہے تاکہ دنیا کی حقیر نفسانی خواہشات کی بے ثباتی کا احساس اتنا گہرا ہو جائے کہ پھر انسان اللہ کی

نافرمانی سے دور تر ہوتا چلا جائے۔ جس کے شب و روز جنت کے تصور، خواہش اور دعا میں کٹتے ہوں اور جو دن میں کئی بار جہنم سے

پناہ مانگتا ہو وہ اس گھٹیا اور

چند روزہ عیش کی حرص میں گرفتار ہو کر اپنی آخرت خراب نہیں کر سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

’’جس شخص نے تمام فکروں کو چھوڑ کر ایک ہی فکر لگائی یعنی آخرت کی فکر اللہ تعالیٰ اس کی دنیوی فکروں کے معاملے میں اس کے لیے

کافی ہو جائے گا اور جسے طرح طرح کی دنیوی فکروں نے پریشان کر رکھا اور وہ آخرت کی فکر کو بھولا رہا تو اللہ تعالیٰ پرواہ نہیں کرے

گا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔‘‘

( ابن ماجہ )

مراقبہ موت

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’موت کو کثرت سے یاد کیا کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنیوالی ہے۔‘‘

( ترمذی )

کبھی کبھی رات کو عشا کی نماز کے بعد یا خدا توفیق دے تو تہجد میں اپنی موت کا تصور کیا کیجیے۔

تصور میں لائیے کہ کہیں جاتے ہوئے اچانک حادثہ میں آپ شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ آپ کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر جان بچانے کی

بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ عزیز و اقارب پریشان کھڑے ہیں۔ ڈاکٹربالآخر موت سے ہار جاتے ہیں۔ خود کو مرا ہوا دیکھیں پھر آپ کی لاش

گھر لائی جا رہی ہے۔ نہلانا، کفن دینا، رشتہ داروں اور دوستوں کا رونا، پھر جنازہ اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ پھر نماز

جنازہ پڑھ کر مٹی کے گڑھے میں دفنا کر پتھر کی سلیں رکھی جا رہی ہیں۔ پھر سب مٹی ڈال کر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ گھپ اندھیرا،

تنہائی، کیڑوں کی آوازیں۔ اگر کوئی اور سزا نہ ہو تو کیا یوں لیٹا رہنا ہی کچھ کم سزا ہے۔ اب سوچئے کہ میں کیا اعمال لے کر آیا ہوں۔ کسی کا

کوئی حق تو میرے ذمے نہیں تھا۔ فلاں کا قرض دینا تھا۔ دے سکتا تھا لیکن غفلت کے باعث آگے ڈالتا گیا۔ فلاں سے زیادتی کی تھی۔ احساس

بھی ہوا مگر جھوٹی اکڑ کے باعث معافی نہ مانگی۔ اب کیا ہو گا تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ فلاں دن یہ موقع پیدا ہوا تھا کہ غریب

ہمسائے کی مالی امداد کریں مگر جو رقم اس پر خرچ ہو سکتی تھی وہ ایک قیمتی لباس پر خرچ کر دی۔ آج وہ لباس اُس دنیا ہی میں چھوڑ آئے

ہیں۔ حالانکہ اگر وہ رقم ایک محتاج کی مدد پر خرچ ہوتی۔ تو یہاں قبر میں ہمارے ساتھ آتی اور اب تو اسے لانے کی کوئی صورت نہیں۔ خوب

اپنی کمزوریاں تلاش کیجیے۔ خوب ندامت کے آنسو بہائیے۔ پھر خدا کا شکر ادا کر کے فوراً وہ سب کام کر ڈالئے جو حقیقی موت کی صورت

میں جہنم میں لے جانے والے ہوتے۔

راہِ عمل

اگر دلوں میں یہ خیال جاگزیں رہے کہ یہ زندگی جو آج ہم گزار رہے ہیں صرف راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور منزل مقصود وہی ہے جو موت

کے بعد ملے گی تو پھر اس راہ پر غم کے کانٹے اگے ہوں۔ یا خوشیوں کے پھول کھلے ہوں، عقلمند مسافر راہ کو راہ ہی سمجھے گا اور منزل

مقصود نہیں بنائے گا۔ اگر راستے میں کانٹے اگے ہوں گے تو وہ صبرو استقامت سے ان کی اذیتیں سہتا سفر جاری رکھے گا اور اگر پھول

کھلے ہوں گے تو اس کے لیے اتنی خوشی کافی ہو گی کہ راستہ چلتے ہوئے کانٹوں کی اذیت نہیں سہنی پڑ رہی اور خوشبو سفر کو خوشگوار

بنا رہی ہے لیکن ان پھولوں سے لطف اٹھانے کے لیے وہ بہرحال راہ کو منزل بنا کر وہیں نہ بیٹھ جائے گا بلکہ اصل منزل کی طرف گامزن

رہے گا۔

انسان ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اگر راہیں نامعلوم اور دشوار ہوں تو سفر دن کی روشنی میں کسی قابل اعتماد راہنما کے

ساتھ طے کیا جائے۔ یہ سفر بھی تبھی منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے اگر اس میں اللہ تعالیٰ کو اپنا مولیٰ و مددگار بنا لیا جائے۔ اسے اس راہ

کے تمام پیچ و خم کی پہلے سے خبر ہے اور وہ ہماری کمزوریوں اور صلاحیتوں کو بھی جانتا ہے۔ اس ذات کے ساتھ ایمان و دعا کا رشتہ

استوار کر کے یہ سفر جاری کیا جائے۔ اسی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بھیجی گئی کتاب میں یہ خبر دی ہے:

’’پھر اگر تمھیں ہماری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر ﴿آخرت میں﴾ نہ تو

( کسی قسم کا )

خوف ﴿طاری﴾ ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے ﴿اور

وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

( البقرة 39- 38:2 )

یہاں قرآن مجید کی پیروی کا حکم ہے اور کسی حکم کی پیروی تب ہی ممکن ہے جب وہ سمجھ میں آیا ہو۔ لہٰذا قرآن کا

ترجمہ جاننا اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں عمل کامیابی کی واحد راہ ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دورانِ سفر

منزل کا ہر لمحہ دھیان رہے۔ قرآن کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جو آخرت کے ذکر سے خالی ہو لہٰذا روزانہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن سمجھ

کر پڑھنا آخرت کی یاد دل میں تازہ رکھنے اور صراطِ مستقیم پر ثابت قدمی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ احادیث کا کوئی اچھا مجموعہ بھی

روزانہ کچھ وقت مطالعہ اور غور و فکر کا موضوع ہونا چاہیے۔ اس سے آپ اُس روشنی میں سفر کریں گے جس کے بار ےمیں ارشادِ باری

تعالیٰ ہے:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو تاکہ اللہ اپنی رحمت میں سے تم کو دوہرا حصہ

دے۔ اور تم کو ﴿ایسا﴾ نور عنایت کرے جس ﴿کی روشنی﴾ میں تم چلو اور تمھاری مغفرت فرمائے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘

( الحدید 28:57 )

آخری بات

جس امتحان کو انسان زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی اتنی ہی زیادہ تیاری بھی کرتا ہے۔ ایک ہونہار طالب علم کے لیے

امتحان کی تیاری کے دنوں کا ہر لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ ان دنوں میں تمام غیر ضروری کام چھوڑ دیے جاتے ہیں بسا اوقات غذا اور راتوں

کی نیند بھی کم کر دی جاتی ہے۔

یہ تو ان امتحانوں کا حال ہے جن پر بہرحال زندگی اور موت منحصر نہیں ہوتی اور جن میں ایک بار فیل ہو جانے کے

بعد دوبارہ بیٹھنے کا موقع بھی موجود ہوتا ہے تو پھر کیا صورت ہو گی اس امتحان کی جس پر ابدی نجات منحصر ہے جس میں فیل ہو جانے

کے بعد کوئی دوسرا موقع امتحان دینے کا حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی تھوڑا سا وقت تیاری کے لیے ملا ہے جسے ہم دنیاوی زندگی کہتے ہیں

یہ مختصر سا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا ایک سیکنڈ بھی دوبارہ نہیں مل سکے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’وہ دوزخ میں چلائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال ﴿اب﴾ ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان اعمال کے

جو ہم ﴿پہلے﴾ کرتے رہے تھے۔ ﴿ارشاد ہو گا﴾ ’’کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں کسی کو سوچنا سمجھنا ہوتا وہ سوچ سمجھ لیتا۔‘‘

( فاطر 37:35 )

اس آیت پر جتنا غور کیجیے کم ہے۔ اب جبکہ ہم زندہ ہیں اور موت سامنےنظر بھی نہیں آرہی یہی وقت ہے نصیحت

پکڑنے کا۔ ورنہ کچھ خبر نہیں کہ کب وہ وقت سر پر آجائے کہ ہم تڑپ تڑپ کر درخواست کریں کہ ہمیں دوبارہ عمل کا موقع دیا جائے مگر

ہمیں وہی جواب دیا جائے گا جو نافرمانوں کو دیا جاتا ہے کہ ’کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہ دی تھی۔‘

اللہ تعالیٰ ہمیں درست راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین ثمہ آمین

Wednesday, February 23, 2011

ایک ہی حدیث میں ۹ مسائل کا بیان

معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ """ بَیْنَا أنا أُصَلِّی مع رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ من الْقَوْمِ فقلت یَرْحَمُکَ اللہ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِأَبْصَارِہِمْ فقلت واثکل أُمِّیَاہْ ما شَأْنُکُمْ تَنْظُرُونَ إلی فَجَعَلُوا یَضْرِبُونَ بِأَیْدِیہِمْ علی أَفْخَاذِہِمْ فلما رَأَیْتُہُمْ یُصَمِّتُونَنِی لَکِنِّی سَکَتُّ فلما صلی رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم فَبِأَبِی ہو وَأُمِّی ما رأیت مُعَلِّمًا قَبْلَہُ ولا بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا منہ فَوَاللَّہِ ما کَہَرَنِی ولا ضَرَبَنِی ولا شَتَمَنِی ::: ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھ تھا کہ نمازیوں میں سے کسی کو چھینک آئی تو میں نے کہا ''' اللہ تُم پر رحم کرے''' تو لوگوں نے مجھے کن انکھیوں سے دیکھا ، تو میں نے کہا ''' میری ماں مجھے کھو دے تُم لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو ''' تو ان سب نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پرمارے ، تو میں جان گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش کروا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی نماز سے فاغ ہوئے ، تو میرے ماں باپ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہوں میں نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرح بہترین تعلیم دینے والا اچھا استاد کوئی نہیں دیکھا ، انہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا نہ ہی مجھے مارا نہ مجھے برا کہا ، بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ ((((( إِنَّ ہذہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فیہا شَیْء ٌ من کَلَامِ الناس إنما ہو التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَاء َۃُ الْقُرْآنِ أو کما قال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم ::: یہ نماز ہے اس میں انسانوں کی باتیں جائز نہیں ہیں یہ (نماز ) تو تسبیح ہے تکبیر ہے اور قران پڑھنا ہے ))))) یا جیسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا ، میں نے عرض کیا ''' یا رَسُولَ اللَّہِ إنی حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ وقد جاء اللہ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُونَ الْکُہَّانَ ::: یا رسول اللہ میں ابھی ابھی جاہلیت میں تھا ، اور اللہ ہمارے پاس اسلام لے کر آیا اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں ''' تو ارشاد فرمایا ((((( فلا تَأْتِہِمْ ::: تُم اُن (کاہنوں )کے پاس مت جانا ))))) میں نے پھر عرض کیا ""'' وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُونَ ::: ہم میں سے کچھ لوگ پرندوں کے ذریعے شگون لیتے ہیں""" تو اِرشاد فرمایا ((((( قال ذَاکَ شَیْء ٌ یَجِدُونَہُ فی صُدُورِہِمْ فلا یَصُدَّنَّہُمْ ::: یہ ایسی چیز ہے جو وہ لوگ اپنے سینو ں میں پاتے ہیں لیکن یہ کام انہیں (اپنے کاموں ) سے روکے نہیں ))))) (یعنی شگون وغیرہ مت لیا کریں ورنہ وہ لوگ اپنے کاموں سے رک جاتے ہیں اور انہیں اپنے کاموں سے رکنا نہیں چاہیے ) ،
قال بن الصَّبَّاحِ فلا یَصُدَّنَّکُمْ
ابن الصباح (اِمام مسلم رحمہُ اللہ کی طرف سے سند میں سب سے پہلے راوی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ""" یہ شگون بازی تمہیں (اپنے کاموں) سے مت روکے """
( آگے پھر معاویہ بن الحکم رضی اللہ کا کہنا ہے ) پھر میں نے عرض کیا """ وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّونَ ::: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں بناتے ہیں """ (یعنی زائچہ بازی کرتے ہیں جو کاہنوں کے کاموں میں سے ہے) تو اِرشاد فرمایا ((((( کان نَبِیٌّ من الْأَنْبِیَاء ِ یَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاکَ ::: نبیوں ( علیھم السلام )میں سے ایک نبی خط کَشی کیا کرتے تھے پس اگر کسی کا خط اس نبی (علیہ السلام)کے خط کے موافق ہو جائے توٹھیک ہے))))) (یہ ایک ناممکن کام ہے ، تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان کرتا ہوں)، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ """ وَکَانَتْ لی جَارِیَۃٌ تَرْعَی غَنَمًا لی قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِیَّۃِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ یَوْمٍ فإذا الذِّئبُ قد ذَہَبَ بِشَاۃٍ مِن غَنَمِہَا وأنا رَجُلٌ مِن بنی آدَمَ آسَفُ کما یَأْسَفُونَ لَکِنِّی صَکَکْتُہَا صَکَّۃً فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللَّہ عَلیہ وعَلی آلہ وسلم فَعَظَّمَ ذلک عَلَیَّ قلت یا رَسُولَ اللَّہِ أَفَلَا أُعْتِقُہَا ::: میرے ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ) کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے ( اس غم میں ) اسے ایک تھپڑ مار دِیا ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر ) بڑا (بوجھ) بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا ''' اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ ''' تو اِرشاد فرمایا ((((( ائْتِنِی بہا ::: اس باندی کو میرے پاس لاؤ )))))
فَأَتَیْتُہُ بہا ::: تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
فقال لہا ((((( أَیْنَ اللہ ))))) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا ((((( اللہ کہاں ہے ؟ )))))
قالت فی السَّمَاء ِ ::: اس باندی نے جواباً عرض کیا ''' آسمان پر ''' ،
قال ((((( مَن أنا ))))) پھر دریافت فرمایا ((((( میں کون ہوں ؟ ))))) ،
قالت أنت رسول اللَّہِ ::: اس نے جواباً عرض کیا ''' آپ اللہ کے رسول ہیں ''' ،
قال ((((( أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ ))))) ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے (مجھے حُکم ) فرمایا ((((( اس کو آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے )))))
صحیح مسلم /حدیث ۵۳۷ /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب 7 بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔

Tuesday, February 22, 2011

تقدیر

تقدیر کے لغوی معنی ہیں اندازہ لگانا، طے کرنا، شرعاً اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جوکچھ ہورہا ہے، ہرلمحہ وہرگھڑی سامنے آرہا ہے، یہ سب جیسے اللہ کی مشیت یعنی اس کے چاہنے سے ہورہا ہے، ایسے ہی دنیا کی پیدائش سے ہزارہا سال پہلے اللہ کی جانب سے اس کے طے کردینے اور طے کرکے لوح محفوظ میں لکھادینے کے مطابق ہورہا ہے، موت وزندگی، عزت وذلت، غربت ودولت، صحت وبیماری، سعادت وبدبختی، ہدایت وگمراہی تمام چیزیں اس کی جانب سے طے شدہ ہیں، سرسری طورپر اس مسئلہ کو دیکھنے میں آدمی الجھ جاتا ہے، بہک جاتا ہے، اسی لیے یہ مسئلہ شریعت کا نہایت نازک مسئلہ ہے، اور اس کی زیادہ کھودوکرید اور اس میں غوروفکر ناپسندیدہ ومنع ہے، بس یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کی جانب سے ایساہی طے ہے، انسان کے دل میں یہ خیال واعتقاد جتنا بس جائے اسے اتناہی سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور یہ حالات اسی کی جانب سے آرہے ہیں۔
آپ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے نظام کائنات کو دوحصوں میں تقسیم کررکھا ہے، ایک حصہ وہ ہے جو محض اس کے کرنے سے اور فرشتوں کے واسطے سے انجام پارہا ہے، انسانوں کا اس میں کوئی دخل نہیں، جیسے ہواؤں کا چلنا، بارش ہونا، پھل وپھول کا اگنا، تمام مخلوقات کی پیدائش وغیرہ۔
دوسرا حصہ وہ ہے جس کو انسانوں سے متعلق کررکھا ہے یعنی انسانی اعمال جنہیں انسان اپنے ہاتھ وپیر ودیگر اعضاء سے کرتا ہے، دل میں ان کے کرنے یا نہ کرنے کا میلان پاتاہے، نفس وضمیر اس سے ان کے کرنے یا نہ کرنے پر ابھارتے وآمادہ کرتے ہیں۔
بہرحال تقدیر یہ ہے کہ دنیا میں جوکچھ ہونا ہے اللہ نے پہلے سے طے فرمادیا ہے، کوئی بھی انسان جب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اس کا کھاناپینا، عمروموت سب طے شدہ ہوتی ہے اور تقدیرمیں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، البتہ اللہ نے تقدیر کے دوحصے رکھے ہیں، ایک کو تقدیر مُعَلَّقْ اور دوسرے کو تقدیر مبرم کہتے ہیں، تقدیرِمعلّق کا مطلب ہے ایسی تقدیر جو کسی چیزپر موقوف ہوتی ہے کہ اس کے ہونے نہ ہونے سے اس میں تبدیلی ہوجاتی ہے، جیسے کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر نیکی کا عادی ہوتو اس کی عمر بڑھادی جاتی ہے اور “تقدیرِمُبْرَم” جوبالکل قطعی ہے اور اس میں کسی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی۔
عالمِ برزخ یعنی قبر کی زندگی-
قرآن پاک اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں ذکرکردہ تفصیلات کے مطابق انسانی زندگی کے چارمراحل ہیں، پہلا مرحلہ عالم ارواح جہاں وہ ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے تک رہتا ہے، دوسرا مرحلہ عالم اجسام یعنی یہ دنیا جہاں وہ ماں کے پیٹ میں آنے کے بعدسے موت تک، تیسرا مرحلہ عالم برزخ یعنی دنیا وآخرت کے درمیان کا عالم جہاں اسے موت سے لے کر قیامت آنے تک رہنا ہے، چوتھا مرحلہ عالم قیامت جو اس عالم کے فناہونے پر شروع ہوگا اور پھر کبھی ختم نہ ہوگا۔
عالمِ ارواح میں صرف روح ہوتی ہے، عالمِ اجسام میں روح کے ساتھ جسم بھی ہوتا ہے، عالم برزخ میں محققین کے قول کے مطابق عام لوگوں کی محض روح ہوتی ہے اور جسم ختم ہوجاتا ہے، ہاں خاص خاص بندوں کے جسم بھی محفوظ رہتے ہیں، جیسے انبیاء، اولیاء، شہداء، عالم آخرت میں پھر روح وجسم دونوں جمع ہوجائیں گے مگر دنیا وآخرت کے جسم میں فرق یہ ہے کہ دنیا کا جسم مختلف چیزوں سے متاثر ہوتا ہے اوربالآخر مٹ جاتا ہے، سڑوگل جاتا ہے اور آخرت کا جسم کبھی نہ بدلے گا اور نہ ہی ختم ہوگا۔
عالم برزخ کوہی قبرکی زندگی کہتے ہیں، اس زندگی کا حاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں کئے گئے اعمال کے مطابق آخرت میں انسان کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کا ہلکاسا نمونہ وسلسلہ قبرسے ہی شروع ہوجاتا ہے، اسی لیےحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا یا جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔
(ترمذی، بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْض،حدیث نمبر:۲۳۸۴)
قیامت کی علامات اور حالات
ہرقسم کے گناہوں کی کثرت، طاعات میں رغبت کی کمی،حضرت مہدی کا آنا، مہدی ان کا لقب ہوگا، ان کا اور ان کے والدین کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین جیسا ہوگا، نیز صورت وسیرت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی ہوگی جو تمام مسلمانوں کے سربراہ ہوں گے اور باطل کے خلاف جہاد کریں گے، اسی بیچ دجال نکلے گا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دنیا میں تشریف لائیں گے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شام کے مشہور شہر دمشق میں دوفرشتوں کے مونڈھوں پر ہاتھ رکھے اتریں گے، قیامت کے قریب ان کی آمد کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے، اس لیے اس کا ماننا ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے، دجال کو قتل کریں گے، دنیا سے شریعت محمدی کے علاوہ تمام دینوں کومٹادیں گے، ان کے زمانے میں سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے۔
وہ باحیات ہی ہوں گے کہ “یاجوج وماجوج” نامی دوقومیں ظاہر ہوں گی جن کو حضرت ذوالقرنین نے دنیا کے کسی حصے میں قید کردیا تھا وہ نکلیں گے، اور بہت بڑی تعداد میں ہوں گے، ان کا تھوڑاساہی حصہ پورے دریا کا پانی پی جائے گا، ساری دنیا کو تباہ وبرباد کریں گے، مسلمان ایک پہاڑپر پناہ لے کر ان سے محفوظ رہیں گے، آخروہ سب ایک آسمانی بلاکا شکار ہوکر مریں گے۔
ایک جانور نکلے گا جو ایک انگوٹھی اور ڈنڈالیے ہوگا اور ہرمسلمان وکافر کے جسم پر انگوٹھی وڈنڈے سے نشان لگائے گا، قیامت سے ایک سوبیس برس پہلے سورج بجائےپورب سے نکلنے کے پچھم سے نکلے گا اور پھر اہل ایمان ختم ہوجائیں گے حتی کہ زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لینے والا نہ رہ جائے گا، نہایت شریر وبدکردار لوگ ہوں گے اور اچانک قیامت آجائے گی، جن کے حالات قرآن مجید کی مختلف سورتوں اوراحادیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔
قیامت ایسا اچانک آئے گی کہ کسی کام کرنے والے کو اپنا کام پورا کرنے کا موقع نہ مل سکے گا، ایک مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سارے انسان وجاندار مرجائیں گے اور سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے گا، آسمان پھٹ جائیں گے، تارے جھڑجائیں گے، سورج وچاند بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے، زمین بالکل ہموار وبرابر کردی جائے گی، پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور ساتھ ہی آسمان سے مانند شبنم ہلکی ہلکی بارش ہوگی تو تمام انسان زندہ ہوکر قبروں سے نکل جائیں گے،میدان حشرمیں جمع ہوجانے کے بعد پوچھ گچھ میں دیرہونے سے لوگوں کی پریشانی بڑھتی ہی جائے گی حتی کہ لوگ انبیاء کرام سے سفارش کو کہیں گے، بڑے بڑے انبیاء کے پاس جائیں گے اور سب معذرت کردیں گے، آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت سے سفارش فرمائیں گے، یہ سفارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کاہی امتیاز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا۔
میدانِ حشر میں فیصلہ سنانے کے بعد جب لوگ روانہ ہوں گے تو سامنے ایک پل آئے گا، کافرتو اس کے نیچے ہی رہ جائیں گے کہ نیچے ہی جہنم ہوگی، سیدھے وہاں پہنچادیئے جائیں گے اور مومن پل کے اوپرسے گزریں گے، ہرایک اپنے اپنے عمل کے مطابق کوئی سواری پر، کوئی پیدل، کوئی نہایت تیز اور کوئی گرتاپڑتا اس میں بھی بدعمل جن کی معافی نہ ہوگی وہ جہنم میں گرجائیں گے اور بعدمیں سفارش اور اللہ کے فضل کی بدولت نکالے جائیں گے ۔
جنت:

جنت کے معنی ہیں باغ، چونکہ عالم آخرت میں اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو جگہ تجویز فرمائی ہے اس میں بکثرت باغات ہوں گے اس لیے اس کو “جنت” کا نام دیا گیا، اور “جہنم” دہکتی ہوئی آگ، یہ دونوں چیزیں پیدا کی جاچکی ہیں، قرآن مجید میں ایک موقع پر آیا ہے، کوئی شخص نہیں جانتاکہ اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پوشیدہ کرکے رکھا گیا ہے(السجدہ:۱۷) اور ایک حدیث میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کیا ہے “وہاں وہ نعمتیں ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال آیا”۔
(بخاری، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۳۰۰۵)
راحت وآسائش، لطف ولذت کی اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں جو ہمیں سمجھانے کے لیے دنیا کی چیزوں کے نام سے بیان کی گئی ہیں، جنت میں ہیں؛ بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر۔
خلاصہ یہ کہ وہ ایسی آرام کی جگہ ہوگی کہ ایک انسان جس نے دنیا میں ساری زندگی مشقتوں اور تکلیفوں میں گزاری ہوگی اسے صرف ایک مرتبہ جنت میں غوطہ سا دےکر نکال لیا جائے گا اور دنیا کی سالہاسال کی تکلیفیں بھول جائے گا۔
جہنم
اللہ کے غیظ وغضب اور اس کی ناگواری کے اظہار کا ذریعہ وجگہ، جو ان لوگوں کے لیےدائمی قیامگاہ کے طورپربنائی گئی ہے، جنہوں نے دنیامیں اپنی عمر اللہ کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ مخالفت میں گزاری اور نہ صرف یہ کہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا؛ بلکہ خدائی میں دوسروں کو شریک بنایا، جس طرح جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں ہوں گی جو تصور میں نہیں آسکتیں، ایسے ہی جہنم کی سزاؤں وعذاب کی سختی کابھی صحیح اندازہ یہاں مشکل ہے، جہنم محض آگ ہی آگ ہے جو ہزارہاسال سے روشن ہے اور دن بدن اس کی تیزی بڑھتی ہی جاتی ہے، آگ جلتے جلتے اب سیاہ وتاریک ہوچکی ہے، ایندھن بھی دنیا کی طرح لکڑیاں نہ ہوں گی؛ بلکہ انسان، پتھر، گندھک اور بت وغیرہ، بڑی تعداد میں انسان جہنم میں جائیں گے، سب کے چہرے سیاہ، جسم کا ایک ایک حصہ نہایت بڑا حتی کہ اکثر اعضاء کھال وزبان وغیرہ میلوں لمبی کردی جائیں گی، سب سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ آگ کی جوتیاں پہنادی جائیں گی مگر ان کا اتنا اثر ہوگاکہ ان کی وجہ سے انسان کا دماغ کھولے گا، خلاصہ یہ ہے کہ وہ ایسی تکلیف کی جگہ ہوگی کہ ایک آدمی جس نے دنیا میں ساری زندگی بڑی راحت اور عیش وآرام میں گزاری ہوگی اسے جہنم میں ایک غوطہ دے کر نکال لیا جائے گا اور وہ اس سالہاسال کی راحت وآرام کو بھلابیٹھے گا اور کہے گا کہ میں نے تو کبھی آرام دیکھا ہی نہیں۔

Monday, February 21, 2011

شفاعت کا بیان

قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ روز قیامت بھی شدت تکلیف میں تمام لوگ جمع ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضورِ الٰہ میں واسطہ شفاعت بناتے ہوئے عرض کریں گے کہ ہمارے لیے اللہ کریم کے حضور سفارش کریں تاکہ حساب و کتاب کا مرحلہ جلدی شروع ہو اور ہم اس جان لیوا تکلیف سے نجات پائیں۔ اس روز رب ذوالجلال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ یہ وہ اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان نبوت کے لیے مختص ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام و مرتبہ پر فائز ہونے سے جمیع امم کو فائدہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی شفاعت فرمائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ عظمیٰ سے لوگوں کو نجات ملے گی۔

سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا :
عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ۔ ( بني اسرائيل، 17 : 79 )
ترجمہ : یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے) پر فائز فرمائے گا۔ (” مقام محمود “ بہت ہی اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جس پر آنحضور کو میدان حشر میں اور جنت میں فائز کیا جائے گا۔ ہم اس مقام کی عظمت اور کیفیت کا اندازہ اپنے تصور سے نہیں کرسکتے۔ مقام محمود کے لفظی معنی قابل تعریف مقام، اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا وہ منصب ہے جس کے تحت آپ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔)

احادیثِ متواترہ صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر حساب و کتاب شروع فرمائے گا۔
چند احادیث ذیل میں ملاحظہ کریں۔

عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ ؓ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما يَقُوْلُ:
إِنَّ النَّاسَ يَصِيْرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُوْلُوْنَ: يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، حَتَّى تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلىٰ النَّبِيِّ ﷺ فَذَلِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ.

حضرت آدم بن علیؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو فرماتے ہوئے سنا:
روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی: اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات نبی اکرم ﷺ پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: تفسير القرآن، باب: قوله: عسي أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 / 1748، الرقم: 4441، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 381، الرقم: 295، وابن منده في الإيمان، 2 / 871، الرقم: 927

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّي يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ فَبَيْنَاهُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَي، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم.
ترجمہ : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، اور بالآخر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔
( بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : عسي أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 : 1748، رقم : 4441 ۔ النسائي، السنن الکبري، سورة الإسراء، 6 : 381، رقم : 295 )

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا، اور سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جس کی قبر شق ہو گی، اور سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہوں گا اور سب سے پہلا شخص بھی میں ہی ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

اسے امام مسلم، ابوداود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

 أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : تفضيل نبينا صلی الله عليه وآله وسلم علی جميع الخلائق، 4 / 1782، الرقم : 2278، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في التخيير بين الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، 4 / 218، الرقم : 4673، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 540، الرقم : 10985، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 257، الرقم : 35849، وابن حبان عن عبد اﷲص في الصحيح، 14 / 398، الرقم : 6478، وأبو يعلی عن عبد اﷲ بن سلامص في المسند، 13 / 480، الرقم : 7493، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 369، الرقم : 792، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 788، الرقم : 1453، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 4، وفي شعب الإيمان، 2 / 179، الرقم : 1486.

Saturday, February 19, 2011

ایک دوسرے کا مذاق مت اڑائیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلاَ نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ...
اے ایمان والو ! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں۔
( الحُجُرات:49 - آيت:11 )


ایک شخص، دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخراپن اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کو اس سے بہتراور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان اور عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے، اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کرکے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے۔


اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
الكبر من بطر الحق وغمط الناس
اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔
ابو داؤد ، کتاب اللباس ، باب ماجاء فی الکبر


حقیقیت میں کامیاب وہ ھے جو اپنے خالق کی نگاھ میں کامیاب ھے - ھمارے خالق نے اپنے نبی کے ذریے ھم کو وہ تمام اعمال بتا دیے ھیں جن سے وہ راضی ھوتا ھے اور اس خالق کا فرمان ھے


فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
اگر کسی بات میں تم میں تنازعہ پیدا ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہو۔
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 59 )

قرآن کی دس عظیم وصیتیں

قرآن مجید میں ایسی آیات ہیں جو کہ اللہ تعالی کی طرف سے بشریت کودس عظیم وصیتوں پرمشتمل ہیں جنہیں علماء کرام نے وصایا عشر کا نام دیاہے ، اور یہ آیات قرآن مجید میں دو جگہ پر ہیں :

اول :

سورۃ الانعام میں اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
آپ کہۓ کہ آؤ‎ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کرسناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے

وہ یہ کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کوشریک مت ٹھرا‎ؤ

اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو

اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل نہ کرو ،ہم تمہیں اور ان کو بھی رزق دیتے ہیں ،

اور بے حیائ کے جتنے طریقے ہیں ان کے قریب بھی مت جا‎ؤ خواہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ

اور جس کا خون کرنا اللہ تعالی نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو ، ہاں امگر حق کے ساتھ

ان کا تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو ۔

اور یتیم کے مال کے پاس نہ جا‎ؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جاۓ ،

اور انصاف کے ساتھ ناپ تول پوری پوری کرو ،

ہم کسی شخص کواس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ،

اور جب تم بات کرو تو انصاف کر ، گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو

اور اللہ تعالی سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرو ،

اللہ تعالی نے تمہیں ان کا تاکید حکم دیا ہے ، تا کہ تم یاد رکھو ۔

اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے ، سو اس راہ پر چلو ، اور دوسری راہوں پر مت چلو کہیں وہ راہیں تم کو اللہ تعالی کی راہ سے جدا نہ کر دیں

اللہ تعالی نے اس کا تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو } الانعام ( 151 - 153 ) ۔

دوم :

سورۃ الاسراء میں اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد جو کہ سورۃ الانعام والی آیات کی شرح لگتی ہے میں کچھ اس طرح ذکر کیا گيا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے :

اور آپ کا رب صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا

اور ماں باپ ساتھ احسان کرنا ، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائيں تو ان کے آگے اف تک کہنا ، اور نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا ،اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضحع کا بازو پست کیے رکھنا او دعاکرتے رہنا کہ اے میرے رب ان پرویسا ہی رحم کرجیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں پرورش کی ہے

جوکچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک بن جاؤ‎ تو بیشک اللہ تعالی رجوع کرنےوالوں کو بخشنے والا ہے ۔

اور رشتے داروں اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو

اور اسراف اور بیجا خرچ سے بچو ، بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔

اور اگر تجھے اپنے رب کی رحمت کی جستجومیں ان سے منہ پھیر لینا پڑے جس رحمت کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سجھا دے ۔

اور اپنا ھاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جاۓ ۔

یقینا آپ کا رب جس کے لیے چاہے روزي کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کردیتا ہے ، یقینا وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے ۔

اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کردو انہیں اور تمہیں بھی ہم ہی روزی دیتے ہیں ، یقینا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ۔

خبردار ! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑي بے حیائ اور بہت ہی بری راہ ہے ۔

اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ تعالی نے حرام کردیا ہے اسے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا ، اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جاۓ ہم نے اس کے وارث کے کوطاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے ۔

اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ سواۓ اس طریقے کہ جو بہتر ہو ، یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جاۓ اوو وعدے پورے کرو کیونکہ قول قرار کی باز پرس ہونے والی ہے ۔

اور جب ناپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو یہی بہتر ہے ، اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے ۔

جس بات کی آپ کو خـبر ہی نہیں اس کے پیچھے مت پڑو کیونکہ کان اور آنکھ اوردل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانےوالی ہے ۔

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی لمبائ میں پہاڑوں تک ہی پہنچ سکتا ہے ۔

ان سب کاموں کی برائی آپ کے رب کے نزدیک ( سخت ) ناپسند ہیں ۔

یہ بھی منجملہ اس وحی میں سے ہے جو تیری طرف آپ کے رب نے حکمت سے اتاری ہے تو اللہ کے ساتھ کسی اور کومعبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہ درگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیے جاؤ } الاسراء ( 23 - 39 ) ۔

الشیخ محمد صالح المنجد

Friday, February 18, 2011

مختلف سورتوں کے فضائل

سو رة الفاتحہ :

٭سورة فاتحہ کو ” اُم القرآن “ کہا جاتا ہے اوراسے سبع مثانی بھی کہتے ہیں ۔یہ سورہ نہیت جامع ہے ۔ یہ سورة یک بہترین دعا بھی ہے ۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی اس میں سمودی گئی ہے ۔ہر نماز کی ہر رکعت میں اس کا پڑھنا فرض ہے ۔اور کسی تکلیف یا بیماری میں اسکا دم کرنا بھی مسنون ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کو یک مفید دم قرار دیا ۔

سو رةالبقرة :

٭ اس سورة کی خاص فضیلت یہ ہے کہ جس گھر میں یہ تلاوت کی جائے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناﺅ کیونکہ جس گھر میں سورة البقرہ کی تلاوت کی جائے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا ۔

(صحیح مسلم)

٭مسند کی حدیث میں ہے : سورئہ بقرہ قرآن کی کوہان ہے اور اسکی بلندی ہے ، اسکی یک یک یت کے ساتھ اسّی اسّی فرشتے اترتے ہیں۔ اور اسکی یک یت ،یة الکرسی عرش کے نیچے سے لائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ملائی گئی ہے ۔

(تفسیر ابن کثیر )

سو رةالکھف :

٭اس کی ابتدائی دس یات اور آخری دس یات کی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے گا اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رھے گا ۔

(صحیح مسلم)

٭جو اس سورة کی تلاوت جمعہ والے دن کرے گا تو آئندہ جمعہ تک اس کیلئے خاص نور اور روشنی رہے گی ۔

(مستدرک حاکم)

٭اسکو پڑھنے سے گھر میں سکینت و برکت نازل ہوتی ہے ۔ یک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سورة کہف پڑھی گھر میں یک جانور بھی تھا وہ بدکنا شروع ہوگیا ، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ، تو انہیں یک بادل نظر یا، جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا ۔ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے واقعہ کا ذکر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے پڑھا کروقرآن پڑھتے وقت سکینہ نازل ہوتی ہے۔

(صحیح بخاری)

سو رة الٓم سجدہ :

٭رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سورة الم سجدہ اور سورة الملک پڑھے بغیر نہیں سویا کرتے تھے ۔(مسند احمد)

سو رة یسین :

٭ ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن مجید کا دل سور ئہ یسین ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ جو شخص رات کو سورئہ یسین پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے اور جو سورئہ دخان پڑھے اسے بھی بخش دیا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کا دل سور ئہ یسین ہے، جو شخص اسے نیک نیتی سے اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے پڑھے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میری چاہت ہے کہ ( سورئہ یسین ) میری امت کے ہر ہر فرد کو یاد ہو ۔

(تفسیر ابن کثیر)

سو رةالواقعة :

٭ حضرت ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ مرض الموت میں مبتلا تھے ، حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انکی عیادت کیلئے تشریف لائے اور ان سے فرمانے لگے کہ اگر میں تمہیں خزانہ میں سے کچھ عطا کروں تو کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :بعد میں تمہاری بچیوںکے کا م آئے گا ۔حضرت ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا تم میری بچیوںکے متعلق فقروفاقہ سے ڈرتے ہو؟ میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر رات سورئہ واقعہ پڑھا کریں ۔ میں نے رسول ا صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :کہ جو آدمی ہر رات سورئہ واقعہ پڑھے گا وہ کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہو گا ۔

(تفسیر ابن کثیر )

سو رةالحشر :

٭حضرت معقل بن یسار رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص صبح کے وقت سورئہ حشر کی آخری تین یات پڑھے تو اس پر اﷲ کی جانب سے ستر ہزار(۰۰۰،۰۷) فرشتے مقرر کر دیے جاتے ہیں ، وہ شام تک اُس کیلئے دعائیں کرتے ہیں، اگر اُس دن مر جائے تو شہادت کا ثواب حاصل کریگا اور جو شام کو پڑھے اُسے بھی یہی مرتبہ حاصل ہو گا۔

(مشکوٰة ،ابن کثیر )

سو رةالملک :

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیس یتوں کی یک سورة ہے جو اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرتی رہے گی یہاں تک کہ اسے بخش دیا جائے ۔ وہ سورئہ تبارک اکذی .... ہے ۔ (ابو داﺅ ، نسائی ، ترمذی ، مسند احمد ) ” سورئہ ملک عذاب ِقبر سے روکنے والی ہے ۔“ یعنی اسکا پڑھنے والا عذاب ِقبر سے محفوظ رہے گا ، بشرطیکہ وہ احکام و فرائض اسلام کا پابند ہو ۔

(رواہ شیخ البانی ، الصحیحة )

سو رةالکافرون :

٭رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورئہ الکافرون اور سورئہ اخلاص کو طواف کے بعد دو رکعت نماز میں تلاوت فرمایا ۔ (صحیح مسلم)

٭رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ِفجر کی سنتوں اور مغرب کی بعد کی دو رکعت میں ، سورئہ الکافرون اور سورئہ اخلاص پڑھتے تھے ۔

(صحیح مسلم ، مسند احمد ، نسائی ، ترمذی )

٭ سورئہ کافرون یک دفعہ پڑھنے کا اجر چوتھائی قرآن کے برابر ہے ۔ (ابن کثیر)

سو رةالاخلاص :

٭ترمذی اور مسند احمد کی حدیث ہے :یک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اس سورة سے بہت محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا ۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قل ھو اﷲ تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ یعنی( قل ھو اﷲ )کویک مرتبہ پڑھنے سے تہائی قرآن کے مساوی ثواب ملتا ہے ، تین مرتبہ پڑھنا یک قرآن کے برابر ہے ۔ (سُبحَانَ اﷲ)

٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یک شخص کو سورئہ اخلاص کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر فرمایا :کہ واجب ہو گئی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیا واجب ہو گئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت ۔

(ترمذی و نسائی )

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اس پوری سورة کو دس مرتبہ پڑھ لے گا ، اﷲ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں یک محل تعمیر کر دے گا ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا : یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر تو ہم بہت سے محل بنوا لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲرب العالمین اس سے بھی زیادہ اوراس سے بھی اچھا دینے والا ہے ۔

(مسند احمد)

سو رةالفلق : سو رةالنّاس :

٭ان دو سورتوں کی بھی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ تکلیف وغیرہ کے وقت پڑھ کرجسم پر پھونکنا بھی مسنون ہے ۔ اور جادو کے اثر سے بچنے کیلئے پڑھنا درست ہے ۔

(صحیح بخاری )

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب بستر پر بیٹھتے دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر اِن میں ، قل ھواﷲ ،قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبرب الناس پڑھ کر پھونکتے پھر جسم کے جس جس حصے پر پھیر سکتے ہاتھ پھیرتے، سر،چہرہ اور جسم کے سامنے حصے سے شروع فرماتے اس طرح تین دفعہ کرتے۔

(بخاری و مسلم)

٭ نماز ِ ظہر ، عصر ، عشاء کے بعد یک یک دفعہ( قل ھواﷲ ،قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبرب الناس) جب کہ مغرب اور فجر کی نمازوں کے بعد تین تین مرتبہ پڑھنا مسنون ہے ۔

(صحیح ترمذی )

Saturday, February 5, 2011

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال ۔ بعض لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اور محافل میلاد منعقد کرنے کو بدعت و حرام کہتے ہیں ۔ قرآن و سنت اور ائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان فرمائیے۔

جواب۔ ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور بارہ بارہ ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)

بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔



شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟


صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خ-واب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخ-ل فرمادے ۔ ( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے(۔ (مشکوہ)

حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)

ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 94 ، خصائص کبری ج 1 ص 40 ، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھندے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109 ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)
جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)
امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129)

امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ ( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص 8)
ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے ۔ اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی و گمراہ ہیں۔
از: سید شاہ تراب الحق قادری رضوی