Pages

Tuesday, February 22, 2011

تقدیر

تقدیر کے لغوی معنی ہیں اندازہ لگانا، طے کرنا، شرعاً اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جوکچھ ہورہا ہے، ہرلمحہ وہرگھڑی سامنے آرہا ہے، یہ سب جیسے اللہ کی مشیت یعنی اس کے چاہنے سے ہورہا ہے، ایسے ہی دنیا کی پیدائش سے ہزارہا سال پہلے اللہ کی جانب سے اس کے طے کردینے اور طے کرکے لوح محفوظ میں لکھادینے کے مطابق ہورہا ہے، موت وزندگی، عزت وذلت، غربت ودولت، صحت وبیماری، سعادت وبدبختی، ہدایت وگمراہی تمام چیزیں اس کی جانب سے طے شدہ ہیں، سرسری طورپر اس مسئلہ کو دیکھنے میں آدمی الجھ جاتا ہے، بہک جاتا ہے، اسی لیے یہ مسئلہ شریعت کا نہایت نازک مسئلہ ہے، اور اس کی زیادہ کھودوکرید اور اس میں غوروفکر ناپسندیدہ ومنع ہے، بس یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کی جانب سے ایساہی طے ہے، انسان کے دل میں یہ خیال واعتقاد جتنا بس جائے اسے اتناہی سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور یہ حالات اسی کی جانب سے آرہے ہیں۔
آپ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے نظام کائنات کو دوحصوں میں تقسیم کررکھا ہے، ایک حصہ وہ ہے جو محض اس کے کرنے سے اور فرشتوں کے واسطے سے انجام پارہا ہے، انسانوں کا اس میں کوئی دخل نہیں، جیسے ہواؤں کا چلنا، بارش ہونا، پھل وپھول کا اگنا، تمام مخلوقات کی پیدائش وغیرہ۔
دوسرا حصہ وہ ہے جس کو انسانوں سے متعلق کررکھا ہے یعنی انسانی اعمال جنہیں انسان اپنے ہاتھ وپیر ودیگر اعضاء سے کرتا ہے، دل میں ان کے کرنے یا نہ کرنے کا میلان پاتاہے، نفس وضمیر اس سے ان کے کرنے یا نہ کرنے پر ابھارتے وآمادہ کرتے ہیں۔
بہرحال تقدیر یہ ہے کہ دنیا میں جوکچھ ہونا ہے اللہ نے پہلے سے طے فرمادیا ہے، کوئی بھی انسان جب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اس کا کھاناپینا، عمروموت سب طے شدہ ہوتی ہے اور تقدیرمیں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، البتہ اللہ نے تقدیر کے دوحصے رکھے ہیں، ایک کو تقدیر مُعَلَّقْ اور دوسرے کو تقدیر مبرم کہتے ہیں، تقدیرِمعلّق کا مطلب ہے ایسی تقدیر جو کسی چیزپر موقوف ہوتی ہے کہ اس کے ہونے نہ ہونے سے اس میں تبدیلی ہوجاتی ہے، جیسے کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر نیکی کا عادی ہوتو اس کی عمر بڑھادی جاتی ہے اور “تقدیرِمُبْرَم” جوبالکل قطعی ہے اور اس میں کسی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی۔
عالمِ برزخ یعنی قبر کی زندگی-
قرآن پاک اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں ذکرکردہ تفصیلات کے مطابق انسانی زندگی کے چارمراحل ہیں، پہلا مرحلہ عالم ارواح جہاں وہ ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے تک رہتا ہے، دوسرا مرحلہ عالم اجسام یعنی یہ دنیا جہاں وہ ماں کے پیٹ میں آنے کے بعدسے موت تک، تیسرا مرحلہ عالم برزخ یعنی دنیا وآخرت کے درمیان کا عالم جہاں اسے موت سے لے کر قیامت آنے تک رہنا ہے، چوتھا مرحلہ عالم قیامت جو اس عالم کے فناہونے پر شروع ہوگا اور پھر کبھی ختم نہ ہوگا۔
عالمِ ارواح میں صرف روح ہوتی ہے، عالمِ اجسام میں روح کے ساتھ جسم بھی ہوتا ہے، عالم برزخ میں محققین کے قول کے مطابق عام لوگوں کی محض روح ہوتی ہے اور جسم ختم ہوجاتا ہے، ہاں خاص خاص بندوں کے جسم بھی محفوظ رہتے ہیں، جیسے انبیاء، اولیاء، شہداء، عالم آخرت میں پھر روح وجسم دونوں جمع ہوجائیں گے مگر دنیا وآخرت کے جسم میں فرق یہ ہے کہ دنیا کا جسم مختلف چیزوں سے متاثر ہوتا ہے اوربالآخر مٹ جاتا ہے، سڑوگل جاتا ہے اور آخرت کا جسم کبھی نہ بدلے گا اور نہ ہی ختم ہوگا۔
عالم برزخ کوہی قبرکی زندگی کہتے ہیں، اس زندگی کا حاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں کئے گئے اعمال کے مطابق آخرت میں انسان کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کا ہلکاسا نمونہ وسلسلہ قبرسے ہی شروع ہوجاتا ہے، اسی لیےحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا یا جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔
(ترمذی، بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْض،حدیث نمبر:۲۳۸۴)
قیامت کی علامات اور حالات
ہرقسم کے گناہوں کی کثرت، طاعات میں رغبت کی کمی،حضرت مہدی کا آنا، مہدی ان کا لقب ہوگا، ان کا اور ان کے والدین کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین جیسا ہوگا، نیز صورت وسیرت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی ہوگی جو تمام مسلمانوں کے سربراہ ہوں گے اور باطل کے خلاف جہاد کریں گے، اسی بیچ دجال نکلے گا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دنیا میں تشریف لائیں گے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شام کے مشہور شہر دمشق میں دوفرشتوں کے مونڈھوں پر ہاتھ رکھے اتریں گے، قیامت کے قریب ان کی آمد کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے، اس لیے اس کا ماننا ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے، دجال کو قتل کریں گے، دنیا سے شریعت محمدی کے علاوہ تمام دینوں کومٹادیں گے، ان کے زمانے میں سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے۔
وہ باحیات ہی ہوں گے کہ “یاجوج وماجوج” نامی دوقومیں ظاہر ہوں گی جن کو حضرت ذوالقرنین نے دنیا کے کسی حصے میں قید کردیا تھا وہ نکلیں گے، اور بہت بڑی تعداد میں ہوں گے، ان کا تھوڑاساہی حصہ پورے دریا کا پانی پی جائے گا، ساری دنیا کو تباہ وبرباد کریں گے، مسلمان ایک پہاڑپر پناہ لے کر ان سے محفوظ رہیں گے، آخروہ سب ایک آسمانی بلاکا شکار ہوکر مریں گے۔
ایک جانور نکلے گا جو ایک انگوٹھی اور ڈنڈالیے ہوگا اور ہرمسلمان وکافر کے جسم پر انگوٹھی وڈنڈے سے نشان لگائے گا، قیامت سے ایک سوبیس برس پہلے سورج بجائےپورب سے نکلنے کے پچھم سے نکلے گا اور پھر اہل ایمان ختم ہوجائیں گے حتی کہ زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لینے والا نہ رہ جائے گا، نہایت شریر وبدکردار لوگ ہوں گے اور اچانک قیامت آجائے گی، جن کے حالات قرآن مجید کی مختلف سورتوں اوراحادیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔
قیامت ایسا اچانک آئے گی کہ کسی کام کرنے والے کو اپنا کام پورا کرنے کا موقع نہ مل سکے گا، ایک مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سارے انسان وجاندار مرجائیں گے اور سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے گا، آسمان پھٹ جائیں گے، تارے جھڑجائیں گے، سورج وچاند بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے، زمین بالکل ہموار وبرابر کردی جائے گی، پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور ساتھ ہی آسمان سے مانند شبنم ہلکی ہلکی بارش ہوگی تو تمام انسان زندہ ہوکر قبروں سے نکل جائیں گے،میدان حشرمیں جمع ہوجانے کے بعد پوچھ گچھ میں دیرہونے سے لوگوں کی پریشانی بڑھتی ہی جائے گی حتی کہ لوگ انبیاء کرام سے سفارش کو کہیں گے، بڑے بڑے انبیاء کے پاس جائیں گے اور سب معذرت کردیں گے، آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت سے سفارش فرمائیں گے، یہ سفارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کاہی امتیاز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا۔
میدانِ حشر میں فیصلہ سنانے کے بعد جب لوگ روانہ ہوں گے تو سامنے ایک پل آئے گا، کافرتو اس کے نیچے ہی رہ جائیں گے کہ نیچے ہی جہنم ہوگی، سیدھے وہاں پہنچادیئے جائیں گے اور مومن پل کے اوپرسے گزریں گے، ہرایک اپنے اپنے عمل کے مطابق کوئی سواری پر، کوئی پیدل، کوئی نہایت تیز اور کوئی گرتاپڑتا اس میں بھی بدعمل جن کی معافی نہ ہوگی وہ جہنم میں گرجائیں گے اور بعدمیں سفارش اور اللہ کے فضل کی بدولت نکالے جائیں گے ۔
جنت:

جنت کے معنی ہیں باغ، چونکہ عالم آخرت میں اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو جگہ تجویز فرمائی ہے اس میں بکثرت باغات ہوں گے اس لیے اس کو “جنت” کا نام دیا گیا، اور “جہنم” دہکتی ہوئی آگ، یہ دونوں چیزیں پیدا کی جاچکی ہیں، قرآن مجید میں ایک موقع پر آیا ہے، کوئی شخص نہیں جانتاکہ اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پوشیدہ کرکے رکھا گیا ہے(السجدہ:۱۷) اور ایک حدیث میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کیا ہے “وہاں وہ نعمتیں ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال آیا”۔
(بخاری، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۳۰۰۵)
راحت وآسائش، لطف ولذت کی اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں جو ہمیں سمجھانے کے لیے دنیا کی چیزوں کے نام سے بیان کی گئی ہیں، جنت میں ہیں؛ بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر۔
خلاصہ یہ کہ وہ ایسی آرام کی جگہ ہوگی کہ ایک انسان جس نے دنیا میں ساری زندگی مشقتوں اور تکلیفوں میں گزاری ہوگی اسے صرف ایک مرتبہ جنت میں غوطہ سا دےکر نکال لیا جائے گا اور دنیا کی سالہاسال کی تکلیفیں بھول جائے گا۔
جہنم
اللہ کے غیظ وغضب اور اس کی ناگواری کے اظہار کا ذریعہ وجگہ، جو ان لوگوں کے لیےدائمی قیامگاہ کے طورپربنائی گئی ہے، جنہوں نے دنیامیں اپنی عمر اللہ کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ مخالفت میں گزاری اور نہ صرف یہ کہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا؛ بلکہ خدائی میں دوسروں کو شریک بنایا، جس طرح جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں ہوں گی جو تصور میں نہیں آسکتیں، ایسے ہی جہنم کی سزاؤں وعذاب کی سختی کابھی صحیح اندازہ یہاں مشکل ہے، جہنم محض آگ ہی آگ ہے جو ہزارہاسال سے روشن ہے اور دن بدن اس کی تیزی بڑھتی ہی جاتی ہے، آگ جلتے جلتے اب سیاہ وتاریک ہوچکی ہے، ایندھن بھی دنیا کی طرح لکڑیاں نہ ہوں گی؛ بلکہ انسان، پتھر، گندھک اور بت وغیرہ، بڑی تعداد میں انسان جہنم میں جائیں گے، سب کے چہرے سیاہ، جسم کا ایک ایک حصہ نہایت بڑا حتی کہ اکثر اعضاء کھال وزبان وغیرہ میلوں لمبی کردی جائیں گی، سب سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ آگ کی جوتیاں پہنادی جائیں گی مگر ان کا اتنا اثر ہوگاکہ ان کی وجہ سے انسان کا دماغ کھولے گا، خلاصہ یہ ہے کہ وہ ایسی تکلیف کی جگہ ہوگی کہ ایک آدمی جس نے دنیا میں ساری زندگی بڑی راحت اور عیش وآرام میں گزاری ہوگی اسے جہنم میں ایک غوطہ دے کر نکال لیا جائے گا اور وہ اس سالہاسال کی راحت وآرام کو بھلابیٹھے گا اور کہے گا کہ میں نے تو کبھی آرام دیکھا ہی نہیں۔