دوسري قسط
انا نحن نحيي الموتى ونكتب ما قدموا واثارهم وكل شيء احصيناه في امام مبين (يس 12) ”یقینا ہم ہی مُردوں کوزندہ کرنے والے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا ۔ اور ہم نے ہر چیز کو ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“
مردوں کو جلانے کا مسئلہ ہی قیامت ا ورآخرت کے منکرین کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید کے مختلف مقامات میں دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ یہ کام اس کے لیے کتنا آسان ہے:
” اور یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈّیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے اُٹھائے جائیں گے؟ اُن سے کہو تم پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤیا کوئی اور شئے جو تمہارے خیال میں اس سے بھی زیادہ سخت ہو ۔اس کے بعد وہ پوچھیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرےگا؟ جواب میں کہو ”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا “ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے ”اچھا!تو یہ ہوگا کب؟ تم کہدو کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو “ سورة الحج میں اللہ تعالیٰ فرمایا : ” لوگو!اگر تمہیں زندگی بعدِموت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہوکہ ہم نے تم کو مٹّی سے پیدا کیا ہے۔پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ ) ہم تم پر حققیقت کو آشکارا کردیں۔پھر ایک خاص مدّت تک ہم جس( شکل) کو چاہیں رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں اور پھر ایک بچے کی صورت ہم تمہیں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو“(الحج : 5)
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد موت کو پر زور اسلوب میں بیان کیا ہے کہ ”بروزِ قیامت ہم سبھی مُردوں کو خود ہی زندہ کرنے والے ہیں“
امام ابنِ کثیر رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ جن لوگوں کے دل کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہو چکے ہیںان میں سے جس کو چاہے گا اللہ تعالی ٰبذریعہ ہدایت زندہ کر دے گا۔ جیسے سورة الحدید میں ان لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد جن کے دل ہدایت سے محرومی کی وجہ سے سخت ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ” جان لو کہ اللہ زمین میں جان ڈالتا ہے اس کے مر جانے کے بعد ، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں صاف صاف بتادی ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو“( الحدید : 17)
وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم´﴿” اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا “
مَا قَدَّمُو´ا وہ سارے نیک و بد اعمال جو انہوں نے اپنی زندگیوں میں کیے اور اب ان سے قلم اُٹھا لیا گیا ہے۔ جیسے حدیث میں آیا ہے "جب آدمی کوئی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی اس سے کٹ جاتا ہے"
وَاٰثَارَھُم´ سے وہ اعمال مراد ہیں جن کا اجر و ثواب آدمی کو بعدِ مرگ بھی ملتا رہتا ہے اور انسانی سماج میں بھی ان کا اثر پھیلتا پھولتا رہتا ہے ۔یا اس سے وہ سارے برے اعمال مراد ہیں جن کی نحوست مرنے کے بعد بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور انکا گناہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہوا جاتا ہے۔ پھرسماج کا بھی یہ ناسور بن جاتا ہے۔
آثار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
جیسے ایک شخص ایک کام کرتا ہے اچھا یا برا ، اس کا ثواب یا گناہ اس کے نامہ عمل میں درج کیا جاتا ہے ۔ پھر اس کا دیکھا دیکھی کچھ دوسرے لوگ بھی اسی (اچھے یا برے ) کام کو کرنے لگتے ہیں جس کا سلسلہ اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔جس کا اجر یا گناہ ان لوگوں کے دفترِ عمل میں لکھے جانے کے ساتھ ساتھ نتیجہ عمل اس شخص کی کتاب میں بھی درج کیا جاتا ہے جو اس عمل کا سبب بنا تھا۔صحیح مسلم کی روایت میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے
یعنی جس کسی نے بھی اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رواج دیا اُسے اپنا اجر تو ملیگا ہی ساتھ میں لوگوں کا اجر بھی اس کے دفتر میں جمع ہوگا جو اس کے بعد بھی اس پر عمل پیرا رہے جبکہ ان کے اجر میں ذرا کمی نہیں کی جائے گی(مسلم) بالکل یہی معاملہ غلط کاموں کو رواج دینے کا بھی ہے ۔ (نوٹ: یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سنّتِ حسنہ کو رواج دینے کا مطلب اسلام کے اندر غیر اسلامی ریت اور روایتوں کو اپنانا اور ان کو رواج دینا نہیں ہے اور نہ اس سے مراد دین میں نئے طریقوں کو ایجاد کرنا ہے ۔ اللہ کہ رسول ا نے فرمایا ہے کہ جس نے بھی ہماری اس شریعت میں کسی نئی چیزکا اضافہ کیا وہ نا قابل قبول ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث سے مطلوب اس سنت کو زندہ کرنا ہے جسے لوگوں نے فراموش کردیا ہو یا کسی بدعت نے اس کی جگہ لی ہو ۔)
آثار کی ایک صورت ایک اور مشہور حدیث میں اس طرح وارد ہوی ہے۔ آپ ا نے فرمایا ” اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث ، من علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ او صدقة جاریة من بعدہ “ جب کوئی آدمی مرجا تا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے عمل کا سلسلہ بھی کٹ جاتا ہے (یعنی اس کا عمل نامہ بند ہوجاتا ہے اور اس میں اجر وثواب کا اندراج رک جاتا ہے) مگر تین چیزوں کا ثواب اس کے نامہ ¿ عمل میں برابر لکھا جاتا رہے گا ان میں سے ایک مرنے والے کا چھوڑا ہوا علم ہے جس سے (اس کے بعد بھی ) استفادہ کیا جائے گا۔ دوسری چیز اسکی چھوڑی ہوی نیک اور صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے اور وہ صدقہ جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ (مسلم)
مفسّر امام ابنِ کثیر رحمه الله نے ’ آثار ‘ کا ایک مطلب اور بھی بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ” اس سے مراد وہ نشانِ قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی راہ میں پڑتے ہیں ۔ اس قول کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام مسلم نے روایت کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ جب مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے ارد گرد کی کچھ زمینیں خالی ہونے لگیں تو بنو سلمہ کے لوگوں نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس کی خبر ہوی تو آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا : کہ اے بنو سلمہ ! اب جن گھروں میں ہو وہیں رہو (تم جووہاں سے چل کر مسجد آتے ہو ) تمہارا ہر ہر نقشِ قدم لکھا جارہا ہے اور تمہارا ہر نشانِ قدم (اللہ تعالیٰ کے پاس ) محفوظ ہورہا ہے۔ کچھ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہی آیت اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتیٰ وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم نازل ہوی تھی۔
اس طرح سے وَنَکتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم کے مفہوم سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں
٭انسان خود کو شترِ بے مہار نہ سمجھے اورزمین پر من مانی کرتانہ پھرے ۔ اسے اس کی آزادی کے حدود بتائے گئے اور خبردارکیا گیا کہ اس کی حیثیت زمین کے اوپراس قیدی کی سی ہے جس کے چاروں طرف کڑی نگرانی لگائی گئی ہے ۔ نہ سونے والی نگاہیں ہمیشہ اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اس پر ایسے چاق و چوبند پہرہ بٹھایا گیا ہے جو اس کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہے ہیں اور جو اس کی سانسوں کی بھی گنتی رکھتے ہیں۔قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ سورہ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے کہا : ” کیا وہ سجھتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور اکی سر گوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سک رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس رہ کر لکھ رہے ہیں ‘‘(الزخرف: 80)
٭”انسان کی زبان سے نکلنے والی ہر بات نوٹ کی جارہی ہے ”(حرکات و سکنات اوراشارات و کنایات کوبھی تاڑنے والے ) فی الفور گرفت میں لانے والے دونوں ( فرشتے)نوٹ کر رہے ہیں ، ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب۔ زبان سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے“
٭اس کے سارے افعال کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے ۔اور انہیں محفوظ کیا جارہا ہے اس میںکوئی شک نہیں کہ تم پر نگران مقرر ہیں ، کچھ معزز کاتبین ، وہ ہر اس چیز کوجانتے ہیں جو تم کرتے ہو ۔ (الانفطار : 10۔12) انسان کے ان ریکارڈ شدہ اعمال کو بروز قیامت اس کے سامنے پیش کیا جائےگا ۔ آیت کا پہلا حصہ اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتی سے اس کی طرف اشارہ ملتاہے۔ قرآن مجیدنے مختلف مقاماتمیں متعدد پیرایوں سے اس کی وضاحت کی ہے۔مثلا ً سورة بنی اسرائیل میں بتا یا گیا : ” اور ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اسکے گلے کے ساتھ باندھ دیا ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا ۔(پھر ہم اس سے کہیں گے ) پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔“(بنی اسرائیل : 31)
سورة الکہف میں اس کتاب کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے” اوردفتر(عمل)سامنے رکھدیا جائےگا ۔اس وقت تم دیکھوگے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ”ہائے ہماری شامت، یہ کیسی کتاب ہے!؟ ہماری چھوٹی بڑی حرکت میں سے کسی ایک کو بھی تو اس نے نہیں چھوڑی ہے سب کا سب جمع کردیا ہے! “۔ جو کچھ بھی انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہیں کرےگا“ (الکہف : ۹۴)
وَکُلَّ شَیی اَحصَینٰہُ فِی´ اِمَامٍ مُّبِینٍ
’ امام مبین‘ سے اکثر مفسّرین نے ”اللوح المحفوظ“ مراد لیا ہے یعنی وہ ’ام الکتاب’ جس میں کائنات اور اسکی ہر شی ¿ کی تفصیل موجود ہے۔قرطبی نے ’الامام’ کی تشریح کرتے ہوے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہی حجت اور دلیل بھی۔ سید قطب شہید رحمه الله لکھتے ہیں کہ ” اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور قدیم علم ہے جو کائنات کی ہر ہر چیز پر محیط ہے ” اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ساری کائنات، اس کا ذرہ ذرہ اور اس میں ظہور پذیر ہونے والا ہر واقعہ لکھ کر محفوظ کردی گئی ہے۔
اعجاز الدین عمری
اہم مراجع و مصادر:
فسیر ابنِ کثیر از امام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرالدمشقی رحمه الله
تفسیر قرطبی (جامع لأحکام القرآن) از امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمه الله
تفسیرطبری(جامع ا لبیان فی تفسیر القرآن) از امام ابو جعفر محمدبن جریرالطبری رحمه الله
فتح القدیر از امام محمدعلی الشوکانی رحمه الله
فتح الباری از اشہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی رحمه الله
فی ظلال القرآن از شہید سید قطب رحمه الله
اضواءالبیان فی ایضاح القرآن از محمد الامین الشنقیطی رحمه الله
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمه الله
تدبّرِ قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی رحمه الله
انا نحن نحيي الموتى ونكتب ما قدموا واثارهم وكل شيء احصيناه في امام مبين (يس 12) ”یقینا ہم ہی مُردوں کوزندہ کرنے والے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا ۔ اور ہم نے ہر چیز کو ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“
مردوں کو جلانے کا مسئلہ ہی قیامت ا ورآخرت کے منکرین کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید کے مختلف مقامات میں دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ یہ کام اس کے لیے کتنا آسان ہے:
” اور یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈّیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے اُٹھائے جائیں گے؟ اُن سے کہو تم پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤیا کوئی اور شئے جو تمہارے خیال میں اس سے بھی زیادہ سخت ہو ۔اس کے بعد وہ پوچھیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرےگا؟ جواب میں کہو ”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا “ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے ”اچھا!تو یہ ہوگا کب؟ تم کہدو کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو “ سورة الحج میں اللہ تعالیٰ فرمایا : ” لوگو!اگر تمہیں زندگی بعدِموت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہوکہ ہم نے تم کو مٹّی سے پیدا کیا ہے۔پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ ) ہم تم پر حققیقت کو آشکارا کردیں۔پھر ایک خاص مدّت تک ہم جس( شکل) کو چاہیں رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں اور پھر ایک بچے کی صورت ہم تمہیں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو“(الحج : 5)
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد موت کو پر زور اسلوب میں بیان کیا ہے کہ ”بروزِ قیامت ہم سبھی مُردوں کو خود ہی زندہ کرنے والے ہیں“
امام ابنِ کثیر رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ جن لوگوں کے دل کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہو چکے ہیںان میں سے جس کو چاہے گا اللہ تعالی ٰبذریعہ ہدایت زندہ کر دے گا۔ جیسے سورة الحدید میں ان لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد جن کے دل ہدایت سے محرومی کی وجہ سے سخت ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ” جان لو کہ اللہ زمین میں جان ڈالتا ہے اس کے مر جانے کے بعد ، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں صاف صاف بتادی ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو“( الحدید : 17)
وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم´﴿” اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا “
مَا قَدَّمُو´ا وہ سارے نیک و بد اعمال جو انہوں نے اپنی زندگیوں میں کیے اور اب ان سے قلم اُٹھا لیا گیا ہے۔ جیسے حدیث میں آیا ہے "جب آدمی کوئی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی اس سے کٹ جاتا ہے"
وَاٰثَارَھُم´ سے وہ اعمال مراد ہیں جن کا اجر و ثواب آدمی کو بعدِ مرگ بھی ملتا رہتا ہے اور انسانی سماج میں بھی ان کا اثر پھیلتا پھولتا رہتا ہے ۔یا اس سے وہ سارے برے اعمال مراد ہیں جن کی نحوست مرنے کے بعد بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور انکا گناہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہوا جاتا ہے۔ پھرسماج کا بھی یہ ناسور بن جاتا ہے۔
آثار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
جیسے ایک شخص ایک کام کرتا ہے اچھا یا برا ، اس کا ثواب یا گناہ اس کے نامہ عمل میں درج کیا جاتا ہے ۔ پھر اس کا دیکھا دیکھی کچھ دوسرے لوگ بھی اسی (اچھے یا برے ) کام کو کرنے لگتے ہیں جس کا سلسلہ اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔جس کا اجر یا گناہ ان لوگوں کے دفترِ عمل میں لکھے جانے کے ساتھ ساتھ نتیجہ عمل اس شخص کی کتاب میں بھی درج کیا جاتا ہے جو اس عمل کا سبب بنا تھا۔صحیح مسلم کی روایت میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے
یعنی جس کسی نے بھی اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رواج دیا اُسے اپنا اجر تو ملیگا ہی ساتھ میں لوگوں کا اجر بھی اس کے دفتر میں جمع ہوگا جو اس کے بعد بھی اس پر عمل پیرا رہے جبکہ ان کے اجر میں ذرا کمی نہیں کی جائے گی(مسلم) بالکل یہی معاملہ غلط کاموں کو رواج دینے کا بھی ہے ۔ (نوٹ: یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سنّتِ حسنہ کو رواج دینے کا مطلب اسلام کے اندر غیر اسلامی ریت اور روایتوں کو اپنانا اور ان کو رواج دینا نہیں ہے اور نہ اس سے مراد دین میں نئے طریقوں کو ایجاد کرنا ہے ۔ اللہ کہ رسول ا نے فرمایا ہے کہ جس نے بھی ہماری اس شریعت میں کسی نئی چیزکا اضافہ کیا وہ نا قابل قبول ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث سے مطلوب اس سنت کو زندہ کرنا ہے جسے لوگوں نے فراموش کردیا ہو یا کسی بدعت نے اس کی جگہ لی ہو ۔)
آثار کی ایک صورت ایک اور مشہور حدیث میں اس طرح وارد ہوی ہے۔ آپ ا نے فرمایا ” اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث ، من علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ او صدقة جاریة من بعدہ “ جب کوئی آدمی مرجا تا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے عمل کا سلسلہ بھی کٹ جاتا ہے (یعنی اس کا عمل نامہ بند ہوجاتا ہے اور اس میں اجر وثواب کا اندراج رک جاتا ہے) مگر تین چیزوں کا ثواب اس کے نامہ ¿ عمل میں برابر لکھا جاتا رہے گا ان میں سے ایک مرنے والے کا چھوڑا ہوا علم ہے جس سے (اس کے بعد بھی ) استفادہ کیا جائے گا۔ دوسری چیز اسکی چھوڑی ہوی نیک اور صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے اور وہ صدقہ جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ (مسلم)
مفسّر امام ابنِ کثیر رحمه الله نے ’ آثار ‘ کا ایک مطلب اور بھی بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ” اس سے مراد وہ نشانِ قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی راہ میں پڑتے ہیں ۔ اس قول کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام مسلم نے روایت کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ جب مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے ارد گرد کی کچھ زمینیں خالی ہونے لگیں تو بنو سلمہ کے لوگوں نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس کی خبر ہوی تو آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا : کہ اے بنو سلمہ ! اب جن گھروں میں ہو وہیں رہو (تم جووہاں سے چل کر مسجد آتے ہو ) تمہارا ہر ہر نقشِ قدم لکھا جارہا ہے اور تمہارا ہر نشانِ قدم (اللہ تعالیٰ کے پاس ) محفوظ ہورہا ہے۔ کچھ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہی آیت اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتیٰ وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم نازل ہوی تھی۔
اس طرح سے وَنَکتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم کے مفہوم سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں
٭انسان خود کو شترِ بے مہار نہ سمجھے اورزمین پر من مانی کرتانہ پھرے ۔ اسے اس کی آزادی کے حدود بتائے گئے اور خبردارکیا گیا کہ اس کی حیثیت زمین کے اوپراس قیدی کی سی ہے جس کے چاروں طرف کڑی نگرانی لگائی گئی ہے ۔ نہ سونے والی نگاہیں ہمیشہ اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اس پر ایسے چاق و چوبند پہرہ بٹھایا گیا ہے جو اس کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہے ہیں اور جو اس کی سانسوں کی بھی گنتی رکھتے ہیں۔قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ سورہ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے کہا : ” کیا وہ سجھتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور اکی سر گوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سک رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس رہ کر لکھ رہے ہیں ‘‘(الزخرف: 80)
٭”انسان کی زبان سے نکلنے والی ہر بات نوٹ کی جارہی ہے ”(حرکات و سکنات اوراشارات و کنایات کوبھی تاڑنے والے ) فی الفور گرفت میں لانے والے دونوں ( فرشتے)نوٹ کر رہے ہیں ، ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب۔ زبان سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے“
٭اس کے سارے افعال کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے ۔اور انہیں محفوظ کیا جارہا ہے اس میںکوئی شک نہیں کہ تم پر نگران مقرر ہیں ، کچھ معزز کاتبین ، وہ ہر اس چیز کوجانتے ہیں جو تم کرتے ہو ۔ (الانفطار : 10۔12) انسان کے ان ریکارڈ شدہ اعمال کو بروز قیامت اس کے سامنے پیش کیا جائےگا ۔ آیت کا پہلا حصہ اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتی سے اس کی طرف اشارہ ملتاہے۔ قرآن مجیدنے مختلف مقاماتمیں متعدد پیرایوں سے اس کی وضاحت کی ہے۔مثلا ً سورة بنی اسرائیل میں بتا یا گیا : ” اور ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اسکے گلے کے ساتھ باندھ دیا ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا ۔(پھر ہم اس سے کہیں گے ) پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔“(بنی اسرائیل : 31)
سورة الکہف میں اس کتاب کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے” اوردفتر(عمل)سامنے رکھدیا جائےگا ۔اس وقت تم دیکھوگے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ”ہائے ہماری شامت، یہ کیسی کتاب ہے!؟ ہماری چھوٹی بڑی حرکت میں سے کسی ایک کو بھی تو اس نے نہیں چھوڑی ہے سب کا سب جمع کردیا ہے! “۔ جو کچھ بھی انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہیں کرےگا“ (الکہف : ۹۴)
وَکُلَّ شَیی اَحصَینٰہُ فِی´ اِمَامٍ مُّبِینٍ
’ امام مبین‘ سے اکثر مفسّرین نے ”اللوح المحفوظ“ مراد لیا ہے یعنی وہ ’ام الکتاب’ جس میں کائنات اور اسکی ہر شی ¿ کی تفصیل موجود ہے۔قرطبی نے ’الامام’ کی تشریح کرتے ہوے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہی حجت اور دلیل بھی۔ سید قطب شہید رحمه الله لکھتے ہیں کہ ” اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور قدیم علم ہے جو کائنات کی ہر ہر چیز پر محیط ہے ” اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ساری کائنات، اس کا ذرہ ذرہ اور اس میں ظہور پذیر ہونے والا ہر واقعہ لکھ کر محفوظ کردی گئی ہے۔
اعجاز الدین عمری
اہم مراجع و مصادر:
فسیر ابنِ کثیر از امام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرالدمشقی رحمه الله
تفسیر قرطبی (جامع لأحکام القرآن) از امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمه الله
تفسیرطبری(جامع ا لبیان فی تفسیر القرآن) از امام ابو جعفر محمدبن جریرالطبری رحمه الله
فتح القدیر از امام محمدعلی الشوکانی رحمه الله
فتح الباری از اشہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی رحمه الله
فی ظلال القرآن از شہید سید قطب رحمه الله
اضواءالبیان فی ایضاح القرآن از محمد الامین الشنقیطی رحمه الله
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمه الله
تدبّرِ قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی رحمه الله