عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: “یکون فی آخر ہذہ الأمة خسف ومسخ وقذف قالت: قلت: یا رسول اللہ، أنھلک وفینا الصالحون؟ قال:نعم، اذا کثر الخبث ( أخرجہ الترمذی: 2185
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دئے جانے ، صورتوں کو مسخ کئے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہونگے پھر بھی ہم ہلاک کردئے جائیں گے ؟ آپ انے فرمایا : ہاں جب فسق و فجور عام ہوجائے گا تو ایسا ہوگا ۔تشریح : آج کئی سالوں سے دنیا کے گوشے گوشے میں زلزلے ، سیلاب اور طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ، آئے دن کسی نہ کسی جگہ سے زمین کے دھنس جانے ، فلک بوس عمارتوں کے زمین بوس ہوجانے بڑے بڑے شہروں کا سیلابوں اور طوفانوں کی زد میں آجانے کے واقعات سنائی دیتے ہیں ، ان آفات و بلا کی طبعی و فطری وجہ کوئی بھی ہو لیکن جس چیز سے انکار کی گنجائش نہیں ہے وہ یہ کہ سب کچھ انسانوں کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ، موجودہ دور میں انسانی زندگی کاکوئی گوشہ نہیں ہے جہاں خالق و مالک کی کھلی نافرمانی دیکھنے میں نہ آرہی ہے ، یہی وہ چیز ہے جس کی پیشین گوئی صادق و مصدوق نبی امین حضرت محمد مصطفی انے زیر بحث حدیث میں فرمائی ہے۔اس حدیث سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اس امت پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب لوگ زلزلوں ، صورت وسیرت کے مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھروں کے بارش جیسے عذاب میں مبتلا ہوں گے ، اور ایسا اللہ تعالی کی طرف سے بطور ظلم نہیں بلکہ ان کی بعض بد اعمالیوں کے پاداش میں ہوگا ، جیسے زنا اور امور زنا اس قدر عام ہوجائے کہ لوگوں کے دلوں سے اس کی قباحت جاتی رہے گی، گانے و باجے اس قدر عام ہوجائیں گے کہ ایک فتنہ کی شکل اختیار کرلیں گے ، شراب و منشیات کا دور دورہ اس قدر ہوجائے کہ دنیا کی سب سے بڑی تجارت بن جائے گی اور لوگ ایمان کے ارکان و مسلمات میں شک کرنے لگیں گے تو ایسے عذاب سے لوگ دو چار ہوں گے۔ایک مومن کے لیے باعث تعجب نہیں ہے کہ ایسے تباہ کن حالات و ظروف پیش آرہے ہیں بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ان امور کے پیش آنے کا جو حقیقی سبب ہے اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے اور اس کی حکمت الہی پر غور نہیں کیا جارہا ہے ، جو ان امور کے ظاہر ہونے میں پوشیدہ ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :وما نرسل بالآیات الا تخویفا “اور ہم تومحض ڈرانے کے لیے نشانیاں بھیجا کرتے ہیں ” الاسرائ: 59معلوم ہوا کہ ان آفات و بلا ءکا سبب خالق کائنات کی نافرمانی ، اس کی علت سے لوگوں کو متنبہ کرنا اور اپنے خالق و مالک کی طرف لوٹنے کی دعوت دینا ہے
۔فوائد :(1) زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانی ہے۔(2) گناہ عذاب الہی کا سبب ہیں۔(3) دنیا میں جو مصیبت و بلا بھی آتی ہے وہ لوگوں کے اپنے اعمال کی پاداش ہے۔(4) زلزلوں کی آمد ، سیلاب و طوفان کا اٹھنا لوگوں کو متنبہ کرنے اور اپنے مالک کے حضور توبہ کی دعوت دینے کے لیے ہے
مولانا مقصودالحسن فیضی
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دئے جانے ، صورتوں کو مسخ کئے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہونگے پھر بھی ہم ہلاک کردئے جائیں گے ؟ آپ انے فرمایا : ہاں جب فسق و فجور عام ہوجائے گا تو ایسا ہوگا ۔تشریح : آج کئی سالوں سے دنیا کے گوشے گوشے میں زلزلے ، سیلاب اور طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ، آئے دن کسی نہ کسی جگہ سے زمین کے دھنس جانے ، فلک بوس عمارتوں کے زمین بوس ہوجانے بڑے بڑے شہروں کا سیلابوں اور طوفانوں کی زد میں آجانے کے واقعات سنائی دیتے ہیں ، ان آفات و بلا کی طبعی و فطری وجہ کوئی بھی ہو لیکن جس چیز سے انکار کی گنجائش نہیں ہے وہ یہ کہ سب کچھ انسانوں کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ، موجودہ دور میں انسانی زندگی کاکوئی گوشہ نہیں ہے جہاں خالق و مالک کی کھلی نافرمانی دیکھنے میں نہ آرہی ہے ، یہی وہ چیز ہے جس کی پیشین گوئی صادق و مصدوق نبی امین حضرت محمد مصطفی انے زیر بحث حدیث میں فرمائی ہے۔اس حدیث سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اس امت پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب لوگ زلزلوں ، صورت وسیرت کے مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھروں کے بارش جیسے عذاب میں مبتلا ہوں گے ، اور ایسا اللہ تعالی کی طرف سے بطور ظلم نہیں بلکہ ان کی بعض بد اعمالیوں کے پاداش میں ہوگا ، جیسے زنا اور امور زنا اس قدر عام ہوجائے کہ لوگوں کے دلوں سے اس کی قباحت جاتی رہے گی، گانے و باجے اس قدر عام ہوجائیں گے کہ ایک فتنہ کی شکل اختیار کرلیں گے ، شراب و منشیات کا دور دورہ اس قدر ہوجائے کہ دنیا کی سب سے بڑی تجارت بن جائے گی اور لوگ ایمان کے ارکان و مسلمات میں شک کرنے لگیں گے تو ایسے عذاب سے لوگ دو چار ہوں گے۔ایک مومن کے لیے باعث تعجب نہیں ہے کہ ایسے تباہ کن حالات و ظروف پیش آرہے ہیں بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ان امور کے پیش آنے کا جو حقیقی سبب ہے اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے اور اس کی حکمت الہی پر غور نہیں کیا جارہا ہے ، جو ان امور کے ظاہر ہونے میں پوشیدہ ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :وما نرسل بالآیات الا تخویفا “اور ہم تومحض ڈرانے کے لیے نشانیاں بھیجا کرتے ہیں ” الاسرائ: 59معلوم ہوا کہ ان آفات و بلا ءکا سبب خالق کائنات کی نافرمانی ، اس کی علت سے لوگوں کو متنبہ کرنا اور اپنے خالق و مالک کی طرف لوٹنے کی دعوت دینا ہے
۔فوائد :(1) زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانی ہے۔(2) گناہ عذاب الہی کا سبب ہیں۔(3) دنیا میں جو مصیبت و بلا بھی آتی ہے وہ لوگوں کے اپنے اعمال کی پاداش ہے۔(4) زلزلوں کی آمد ، سیلاب و طوفان کا اٹھنا لوگوں کو متنبہ کرنے اور اپنے مالک کے حضور توبہ کی دعوت دینے کے لیے ہے
مولانا مقصودالحسن فیضی