وضاحت :تقدیر کا معنی مقدار مقرر کرنا ہے۔اصطلاح شریعت میں افعال مخلوق(مخلوق کے اچھے یا برے کاموں) کے بارے میں مالکِ ارض و سما نے جو کچھ لکھا ہے وہ تقدیر کہلاتاہے۔دوسرے الفاظ میں تقدیر اﷲرب العزت کا علمِ مستقبل ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ تقدیر کے بارے میں پائی جانے والی الجھنوں کا سبب اس کے صحیح مفہوم سے عدم واقفیت ہے معنی و مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس کی بابت کوئی اِشکال باقی نہیں رہتاہے ، یہ بات ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ انسان اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کسی چیز کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلیتا ہے اور اس کے انتہائی محدود علم کے باوجود بعض اوقات اس کی رائے اور اندازہ سو فیصد درست ثابت ہوجاتا ہے انسان کے برخلاف اﷲتعالیٰ کا علم اس قدر وسیع اور نہ ختم ہونے والا ہے کہ اس کے لئے ماضی،حال اور مستقبل غائب اور حاضر،دن اور رات،روشنی اور تاریکی جیسی اصطلاحات بالکل بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہیں اس کے سامنے ہر چیز کھلی کتاب کی طرح ہے اس وسیع اور لامحدود علم کی بدولت مخلوق کے بارے میں اس کی لکھی ہوئی تقدیر کبھی غلط نہیں ہوسکتی،اپنے اسی وسیع علم کی روشنی میں اﷲتعالیٰ نے انسان کے عمل کرنے سے پہلے ہی اس کے حساب(کھاتے) میں لکھ دیا ہے کہ یہ انسان اچھے یا برے اور کیا کیا کام کرے گا اور اس کی جزا یا سزا کیا ہوگی ۔ ہادی کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:-’’ایک شخص مسلسل نیک کام کرتا ہے یہاں تک کہ بالکل جنت کے قریب پہنچ جاتا ہے پھر اچانک وہی شخص تقدیر کے مطابق برے کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے اسی طرح ایک شخص برے کام کرتا ہے اور دوزخ کے بالکل قریب پہنچ جاتا ہے پھر وہ اچانک تقدیر کے مطابق اچھے عمل کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔‘‘( صحیح بخا ری کتا ب ا لقد ر)} اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ پہلے سے جانتے ہیں کہ کون کب اور کیا عمل کرے گا وہ اپنے وسیع علم کی بدولت یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ گنہگار انسان آخرکار توبہ کر لے گااور نیک عمل کرنے لگے گا اور اسی(اچھے عمل) پر اس کا خاتمہ ہوگا یا یہ نیکی کرنے والابا لآخر نیکی کا دامن چھوڑ کر گناہوں کی طرف راغب ہوجائے گااور اسی برائی کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوگا۔
تقدیر کے بارے میں یہ تاثر انتہائی گمراہ کن ہے کہ انسان تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے کچھ نہیں کرسکتا حالانکہ نیکی اور برائی کی راہ اختیار کرنا انسان کا اپنا فعل ہے (تفصیل کیلئے پڑھئے تفسیر:18:29-اور76:3) اﷲتعالیٰ کا کوئی جبر نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک استاد امتحان سے پہلے اپنے شاگردوں کے بارے میں اندازہ لگاتاہے کہ فلاں پاس ہوگا فلاں فیل ہوگا اور اگر اس کا اندازہ درست ثابت ہوجائے تو یہ ہرگز نہیں کہا جاسکے گا کہ یہ استاد کے اندازے کی و جہ سے پاس یا فیل ہوئے ہیں۔ پاس یا فیل ہونا ان کے اپنے عمل کی و جہ سے ہے جس طرح استاد کا اندازہ لگانا شاگردوں کو پاس یا فیل ہونے پر مجبور نہیں کرتا اسی طرح اﷲتعالیٰ کا مخلوق کے بارے میں اپنے علم مستقبل کی وجہ سے تقدیر لکھنا انسانوں کو کسی کام پر ہرگز مجبور نہیں کرتا ہے۔
بعض اوقات کچھ لوگ تقدیر کی آڑ میں اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کاروبار اور معاش کیلئے تگ و دو چھوڑ دیں جو مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ مل کر ہی رہے گا تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس کے لئے تقدیر کے ساتھ ساتھ تگ و دو اور بھاگ دوڑ بھی ضروری ہے جس طرح یہاں تقدیر انسان پر جبر کرکے اسے تگ و دو سے نہیں روکتی بلکہ وہ عمل کے لئے آزاد ہے اسی طرح کسی بھی معاملے میں اس پر تقدیر کا جبر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر عمل کے لئے آزاد و خود مختار ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:. (ترجمہ) ’’ اور انسان کیلئے وہی کچھ ہوگا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی ‘‘ (53:40) {آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:-’’ تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں بدل سکتی اور عمر میںاضافہ صلہ رحمی (رشتہ داری نبھانا) کے علاوہ کوئی چیز نہیں کر سکتی۔‘‘(ترمذی عن سلمان فارسی رضی اللہ عنہ )
اس لئے ہر نمازکے بعد یہ دعامانگئے: یا اللہ مرتے وقت میری زبان پر لَآ اِ لٰـــہَ اِ لَّا ا للّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہو اور مجھے صرف اپنی رحمت و فضل سے جنت ا لفردوس عطافرمائیے۔آمین}
تقدیر کی یہ قسم جو اوپر بیان کی گئی ہے اس کو تقدیر مُعَلَّق کہتے ہیں تقدیر کی دو سری قسم بھی ہے جس کو تقدیر مُبْرَم کہتے ہیں تقدیر مبرم وہ ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے پر انسان کو نہ تو جزا ملے گی اور نہ ہی سزا ۔صرف اس لئے کہ اس پر نہ تو اس کا اختیار ہے اور نہ ہی وہ عمل کرنے کے لئے آزاد ہے۔مثلاً موت، مرنے کی جگہ، پیدائش کی جگہ، رزق وغیرہ ۔
تقدیر پر ایمان لانا اور یقین محکم سے مسلمان کی زندگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے جب یہ یقین ہوجائے کہ موت نہ وقت مقررہ سے ٹل سکتی ہے اور نہ ہی اس سے پہلے آسکتی ہے تو دل سے موت کا خوف نکل جاتا ہے۔ جب یہ یقین ہوجائے کہ اﷲتعالیٰ کی مرضی کے بغیر نہ کوئی مصیبت آسکتی ہے اور نہ ہی جاسکتی ہے تو پھر دل سے اﷲتعالیٰ کی مخلوق کا خوف بھی نکل جاتا ہے ۔اور صرف اﷲکریم کی رضا رہ جاتی ہے ۔اور یہ ایمان بن جاتا ہے کہ ہماری ہر کامیابی اﷲتعالیٰ کے صرف فضل و کرم کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔اور جو ناکامی ہوتی ہے اس میں بھی اﷲرحیم کی کوئی نہ کوئی مصلحت شامل ہوتی ہے یا خود ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں صبر کی صورت میں ہمارے گناہ معاف ہوتے ہیں جو کہ خود ایک بہت بڑی مصلحت ہے ۔ اکثر اوقات اس بات کا مشا ہدہ ہوا ہے کہ جس بات یا نتیجہ کو ہم اپنے لئے برا سمجھ رہے تھے بعد میں معلوم ہوتاہے کہ وہ برا نہ تھا بلکہ بہت اچھا تھا۔(تفصیل کے لئے پڑھئے تفسیر2 : 216) }
867 رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔’’تم میں سے ہر شخص اپنی ماں کے پیٹ میں 40 دن نطفہ کی صورت میں، پھر 40 دن جمے ہوئے خون کی صورت میں، پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی صورت میںرہتاہے، پھر فرشتہ کو بھیجا جاتا ہے وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے، پھر اس کو 4 کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کا رزق، اس کی زندگی، اس کا عمل اور اس کی بد بختی یا خوش نصیبی ہونا لکھ دیا جاتا ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، ایک شخص جنتیوں کے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ پھر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے پھر وہ جہنمیوں جیسے عمل کرتا ہے اور جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک شخص جہنمیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس شخص اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جنتیوں جیسے عمل کرتا ہے اور جنت میںداخل ہوجاتا ہے ‘‘۔(عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ )
868 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ماں کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو عرض کرتا ہے یہ نطفہ ہے، اے رب ،اب یہ جما ہوا خون ہے۔ اے رب یہ خون کا لوتھڑا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو فرشتہ عرض کرتا ہے اے رب ،یہ نر ہے یا مادہ؟ شقی ہے یا سعید ؟ اس کا رزق کتنا ہے اور اس کی عمر کیا ہے؟ پس اس طرح اس کی ماں کے پیٹ میں ہی سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے ‘‘۔(عن انس رضی اللہ عنہ )
{وضاحت : انسان کے اپنی ماں کے پیٹ میں ہی اس کا رزق، عمر، سعادت و شقاوت، جنتی یا دوزخی ہونا لکھ دیا جاتا ہے، یہی تقدیر کہلاتی ہے جس پر ایمان لانا فرض ہے۔}
869ہم بقیع غرقد (جنت البقیع) میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ ہمارے پاس
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاکر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر جھکایا اور اپنی چھڑی سے زمین کریدنے لگے۔ پھر فرمایا:۔ ’’تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے جنت یا جہنم میں لکھ دیا ہے اور اس کا اچھا ہونا یا برا ہونا بھی اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے‘‘۔ ایک شخص نے کہا ’’ اے اللہ کے رسول، ہم اپنے متعلق لکھے ہوئے پر اعتماد کیوں نہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’جو شخص خوش نصیبوں میں سے ہوگا وہ عنقریب خوش نصیبوں کی طرح عمل کرے گااور جو شخص برے لوگوں میں سے ہوگا وہ عنقریب برے عمل کرنے والوں میں شامل ہوگا‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’عمل کرو، نیک لوگوں کے لئے نیک اعمال آسان کردیئے جائیں گے اور برے لوگوں کے لئے برے اعمال آسان کردیئے جائیں گے‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:۔ (ترجمہ)’’جس نے صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا اور نیکی کی تصدیق کی ہم اس کے لئے نیکیوں کو آسان کردیں گے اور جس نے کنجوسی کی اور لاپرواہی کی اور نیکی کو جھٹلایا ہم اس کے لئے برائیوں کو آسان کردیں گے‘‘(سورئہ الیل 92 : آیات 5-10)۔ (عن علی رضی اللہ عنہ )
870رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’آدم اور موسیٰنے اللہ کے سامنے بحث کی تو آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب ہوگئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ وہی آدم علیہ السلام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں رکھا، پھر آپ کی غلطی کی و جہ سے جنت سے زمین پر منتقل کیا۔ آدم علیہ السلام نے فرمایاکہ آپ وہی موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے فضیلت دی اور آپ کو (تورات کی) وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے اور آپ کو سرگوشی کے لئے منتخب فرمایا۔ بتاؤ آپکی معلومات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے میرے پیدا کئے جانے سے کتنا عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا 40 سال پہلے۔ آدم علیہ السلام نے کہا آپ نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور وہ گمراہ ہوئے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ میرے اس عمل میں ملامت کررہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے 40 سال پہلے لکھ دیا تھا میں یہ عمل کروں گا‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔’’پھر آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے ‘‘۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
{وضاحت : آدم علیہ السلام کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ اے موسیٰ علیہ السلام تم کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے پہلے یہ و جہ لکھ دی تھی اور میرے حق میں مقدر کردی تھی اس لئے اس کا ہونا یقینی تھا اور اگر میں تمام مخلوق کے ساتھ مل کر بھی اس و جہ سے ایک ذرہ کے برابر بھی انکار کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا تو تم مجھے اس پر کیوں ملامت کرتے ہو۔}
871رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔’’اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے
50 ہز ا ر سال پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا اوراس وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا ‘‘(عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما )
872مشرکین قریش تقدیر کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بحث کرنے کے لئے آئے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی : (ترجمہ)’’جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیںگے اور ان سے کہا جائے گا کہ دوزخ کا عذاب چکھو، بے شک ہم نے ہر چیز تقدیر کے ساتھ بنائی ہے ‘‘ (سورئہ ا لقمر 54 : آیات 48-49)۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
873 رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’تمام بنی آدم کے دل ، رحمن (اللہ) کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ۔ جس کے لئے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ دُعا بار بار پڑھتے تھے :
اَ للّٰھُمَّ مُصَرِّفَ ا لْقُلُوْ بِ صَرِّ فْ قُلُوْ بَنَا عَلـٰی طَا عَتِکَ
(ترجمہ) اے اللہ، دلوں کے پھیرنے والے، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دیجئے‘‘۔(عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ )
874رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’ابن آدم پر جو اس کے زنا کا حصہ لکھا ہوا ہے وہ اس کوملے گا، پس آنکھوں کا زنا (غیر محرم عورتوں کو) دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا (فحش) بات سننا ہے اور زبان کا زنا غیرمناسب بات کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا غیر محرم کو پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا غیر محرم کیلئے چلنا ہے ۔ دل زنا کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے‘‘۔(عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
وضاحت : بعض لوگ حقیقی زنا کرتے ہیں اور بعض لوگ مجازاً زنا کرتے ہیں ۔ دل میں برے خیالات اور گناہ کی طرف رغبت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اگر اس کا علاج کرتے رہیں اور ان برے خیالات پر عمل نہ کریں تو گناہ نہیں لکھا جائے گا بلکہ گناہ نہ کرنے پر ایک نیکی لکھی جائے گی اس لئے برے خیالات آنے کے فوراً بعد بار بار پڑھئیے:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
875رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں، جیسے جانور کا مکمل بچہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا تمہیں کوئی عضو کٹا ہوا نظر آتاہے؟۔(یعنی کوئی نظر نہیں آتا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (ترجمہ)’’(اے لوگو اپنے اوپر) اللہ کی بنائی ہوئی فطرت (دین اسلام) کو اختیار کرلو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی تخلیق میں کچھ رد و بدل نہیں ہوسکتا ہے ‘‘(سورئہ الروم 30: آیت 30)۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
{وضاحت : ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اپنے آبائو اجداد کی پشتوں میں بچوں سے توحید پر قائم رہنے کا جو وعدہ لیا گیا وہ فطرت ہے بچے اسی وعدہ پر پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر ماں باپ کی و جہ سے وہ فطرت بدل جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے پڑھیئے ترجمہ و تفسیر سورئہ ا عراف 7 : آیت 172۔}
876ام حبیبہ رضی اللہ عنھا نے دعا کی ’’اے اللہ، میرے شوہر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ، میرے والد
ابو سفیان اور میرے بھائی کی درازی عمر سے مجھے فائدہ پہنچے ‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:۔’’تم نے اللہ تعالیٰ سے ان مدتوں کا سوال کیا جو مقرر ہیں اور ان قدموں کا جو معین ہیں اور اس رزق کا جو تقسیم ہوچکا ہے۔ ان میں سے کوئی چیز وقت پورا ہونے سے پہلے مقدم نہیں ہوگی اور نہ وقت پورا ہونے کے بعد واقع ہوگی۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرتیں کہ ا للہ تعالیٰ تمہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور قبر کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا‘‘۔ ایک شخص نے پوچھا اے اللہ کے رسول :۔’’کیا (موجودہ) بندر اور خنزیر انہی لوگوں کی نسل سے ہیں جن کی شکلیں بگاڑ دی گئی تھیں‘‘؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو عذاب دے کر یا ہلاک کرکے اس کی آگے نسل نہیں چلائی، بے شک بندر اور خنزیر اس سے پہلے بھی تھے ‘‘۔ (عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )
{وضاحت :۔ وہ لوگ جو اﷲ کے حکم سے بندر اور خنزیر بنے تھے وہ 3دن کے بعد مرگئے تھے اس لئے موجودہ بندر اور خنزیر ان کی نسل میں سے نہیں ہیں۔(تفسیر ابن کثیر)
877 رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پکا مومن کمزور مومن سے زیادہ اچھا اور زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر ہے۔ جو چیز تم کو نفع دے اس میں حرص کرو، اللہ کی مدد چاہو اور تھک کر نہ بیٹھ جائو۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کاش میں ایسا کرلیتا ۔ البتہ یہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اس نے جو چاہا کردیا، یہ لفظ ’’ کاش ‘‘ شیطان کہلواتا ہے ‘‘۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )