Pages

Friday, January 14, 2011

قبر اور میدان محشر کے احوال

آپ کو کیا معلوم کہ قبر کیا ہے ؟ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین سے پوچھئے جو کہ جب بھی کسی قبر کے پاس سے گزرتے ، اس قدر روتے کہ آنسوؤں سے داڑھی مبارک تر ہو جاتی ۔ پوچھنے والے سوال کرتے ہیں کہ جنت اور دوزخ کا سوال ہو تو آپ اس قدر نہیں روتے جتنا کہ قبر کو یاد کرتے ہوئے روتے ہیں کیا سبب ہے ؟ تو فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے جو یہاں سے بچ گیا اگلی منزلیں اس کے لئے آسان ہونگی اگر یہیں ناکام ہو گیا تو آگے اس کی کامیابی مشکل ہوگی ۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ قبر کی منزل سب سے زیادہ ہولناک ہے ۔




نبی رحمت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جب کوئی مومن آدمی اس دنیا سے اگلے جہان کو کوچ کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت آسمان سے خوبرو اور آفتاب کی مانند روشن چہروں والے فرشتے جنت کے کفن اور خوشبو لے کر اڑتے ہیں اور اس کی حد نگاہ پر بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر فرماتے ہیں اے پاک روح ! چل اپنے رب کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اس کی روح اس قدر آسانی سے نکل جاتی ہے جیسا کہ مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ ۔ جب اس کی روح اس کے قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے تو آسمان و زمیں اور ان کے مابین تمام فرشتے اس کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ اور اس کے استقبال میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ ہر دروازے کے دربان آرزو کرتے ہیں کہ اس کی روح انکے پاس سے اوپر جائے ۔ جب ملک الموت اس نیک آدمی کی روح قبض کر لیتے ہیں تو وہ سامنے بیٹھے فرشتے لمحہ بھر وہ روح ان کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے ۔ بلکہ ملک الموت علیہ السلام سے لے کر جنت کے خوشبودار کفن میں لپیٹ لیتے ہیں اور یہ مطلب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا ہے ۔



(( وتوفتہ رسلنا وھم لا یفرطون )) ( الانعام : 6 )



اس سے انتہائی عمدہ خوشبو آنے لگتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس روح کو لے کر فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کس خوش نصیب کی ہے ؟ تو یہ جواب میں اس کا دنیا کے ناموں میں سے سب سے اچھا نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں بن فلاں ہے ۔ یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں ۔ دروازہ کھلواتے ہیں ، دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور ہر آسمان کے مقرب فرشتے احتراماً اگلے آسمان تک ساتھ جاتے ہیں حتیٰ کہ اس کی روح کو ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے تو اللہ احکام الحاکمین فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نام ” علیین “ میں درج کر دو ۔



ارشاد باری تعالیٰ ہے :



(( وما ادرٰک ما علیون کتاب مرقوم یشھدہ المقربون ))



” اور تمہیں کیا خبر کہ علیون کیا ہے وہ بلند پایہ لوگوں کا دفتر ، ایک لکھی ہوئی کتاب ، جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں ۔ “



تو اس کی کتاب علیین میں لکھ دی جاتی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اب اسے زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں انہیں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ زندہ کروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور پھر اسے زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کی روح جسم کی طرف لوٹا دی جاتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر وہ بھی اپنے ساتھیوں کے واپس جاتے ہوئے قدموں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اتنے میں دو سخت مزاج فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اس کو بٹھا کر اس سے سوال کرتے ہیں :


من ربک ( تیرا رب کون ہے ؟ )



تو وہ جواب دیتا ہے :


ربی اللہ ( میرا رب اللہ تعالیٰ ہے )



ما دینک ( تیرا دین کیا ہے ؟ ) تو مومن جواب دیتا ہے دینی الاسلام ( میرا دین اسلام ہے )



پھر پوچھتے ہیں :




کہ جو شخصیت آپ کی طرف مبعوث کی گئی وہ کون تھے ؟ تو مومن کہتا ہے ھو رسول اللہ ( کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ) پھر پوچھتے ہیں ما عملک ( آپ نے کیا عمل کئے ) تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی‘ اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اس سے تین سوال کرتے ہیں :



من ربک


مادینک


من نبیک


اور یہ مومن کا آخری امتحان ہوتا ہے


اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :



(( یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا بِالقَولِ الثَّابِتِ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا )) ( ابراہیم : 27 )



” اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی میں قول ثابت ( کلمہ طیبہ ) پر استقامت عطا فرماتا ہے۔‘‘



پھر آسمان سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا ، صحیح جواب دئیے اب اس کے نیچے جنت کا بستر بچھا دو ، اسے جنت کا لباس پہنادو ، اس کے لئے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ اسے جنت کی معطر ہوائیں آنے لگتی ہیں اور تاحد نگاہ اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کے پاس ایک خوبرو ، خوش پوشاک ، نیک خو نوجوان آتا اور کہتا ہے تمہیں خوش خبری ہو ! اللہ کی خوشنودی اور نعمتوں سے مالامال جنتوں کی ۔ اسی دن کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ تو مومن اس سے کہتا ہے کہ اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے آپ کون ہیں ؟ آپ کا چہرہ خوش بختی کی علامت ہے تو وہ جواب دیتا ہے ” میں آپ کا نیک عمل ہوں ، اللہ کی قسم میں نے آپکو دیکھا کہ اللہ کی اطاعت میں نشیط و چست اور اس کی نافرمانی میں بہت سست تھے ۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اچھا بدلہ عطا فرمایا ۔ پھر اس کیلئے ایک دروازہ جنت کی طرف سے اور ایک دوزخ کی طرف سے کھول دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر تو اللہ کی نافرمانی کرتا تو یہ تیرا ٹھکانا تھا لیکن چونکہ تو نے اللہ کا حکم مانا اب تیرا ٹھکانہ جنت ہے ۔ مومن جب جنت کی رونقیں دیکھتا ہے تو کہتا ہے ۔ اے اللہ ! جلد قیامت قائم کر دے تا کہ میں اپنے مال و اہل کے پاس پہنچ سکوں تو اسے کہا جاتا ہے ابھی آپ آرام کریں ۔


اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کافر اور فاجر آدمی دنیا سے کوچ کر رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سخت مزاج ، وحشت ناک اور سیاہ فام فرشتے جہنم سے سیاہ رنگ کے بدبودار ٹاٹ لے کر آتے ہیں اور اس کی حدنگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر ملک الموت علیہ السلام آتے ہیں اور اس کے سر کے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے ناپاک روح ! چل اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف ، یہ سن کر اس کی روح جسم میں چھپتی پھرتی ہے تو ملک الموت علیہ السلام اس کی روح کو زبردستی اس طرح نکال لیتے ہیں جس طرح بھیگی ہوئی روئی میں خاردار درخت کی ٹہنی کو کھینچ کر نکالا جاتا ہے اور وہ تار تار ہو جاتی ہے ، آسمان و زمین کے تمام فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ آسمان کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور فرشتے دہائی دیتے ہیں کہ اس بدبخت کو ہماری طرف مت لانا ۔


ملک الموت جب اس کی روح کو قبض کر لیتے ہیں تو وہ فرشتے ان سے اس روح کو لے لیتے ہیں اور اس سیاہ رنگ کے بدبو دار کفن میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے انتہائی تیز مردار جیسی بدبو آنے لگتی ہے ۔ فرشتے اسے لے کر چلتے ہیں ۔ راستے میں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کس بدبخت کی روح ہے ، تو وہ دنیا میں جو اس کا سب سے برا نام تھا لے کر بتلاتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے ۔ حتیٰ کہ اس کو آسمان دنیا تک لے جایا جاتا ہے ۔ دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو دروازہ نہیں کھولا جاتا ۔


پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :



(( لاَ تُفَتَّحُ لَہُم اَبوَابُ السَّمَآئِ وَلاَ یَدخُلُونَ الجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الجَمَلُ فِی سَمِّ الخِیَاطِ )) ( اعراف : 40 )



” ان کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے تا آنکہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہوجائے ۔ “


یعنی اس کا جنت کا داخلہ محال ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کی کتاب سب سے نچلی زمین میں سجین کے اندر درج کردو ۔ پھر کہا جاتا ہے کہ میں نے ان کو اسی سے پیدا کیا ، اسی میں واپس بھیجوں گا اور اسی سے ہی دوبارہ زندہ کروں گا ۔ تو اس وقت اس کی روح آسمان سے نیچے پھینک دی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ اس جسم میں واپس پہنچ جاتی ہے ۔



پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی ۔



(( وَمَن یُّشرِک بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخطَفُہُ الطَّیرُ اَو تَہوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ )) ( الحج : 31 )



” جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندوں نے اچک لیا یا ہوا اس کے ذرات کو دور اڑا لے گئی ہو ۔ “



اس کی روح جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حتیٰ کہ وہ اپنے واپس جانے والے ساتھیوں کے قدموں کی آہٹ بھی سنتا ہے تو وہ اس وقت انتہائی خوفناک شکل و صورت والے سخت مزاج دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں ، اس کو ڈانٹتے ہیں اور بٹھا لیتے ہیں ۔ اس اس سے پوچھتے ہیں : من ربک ( تیرا رب کون ہے ؟ ) تو وہ گھبرا کر جواب دیتا ہے ۔ لا ادری ( مجھے معلوم نہیں ) پھر وہ پوچھتے ہیں ما دینک ( تیرا دین کیا ہے ؟ ) تو وہ پریشانی میں لاعلمی کا اظہار کرتا ہے ۔ وہ تیسرا سوال کرتے ہیں کہ اس شخصیت کے بارے میں تم کیا جانتے ہو جنہیں تمہارے اندر مبعوث کیا گیا تھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی بھی نہیں بتا سکتا ۔ پھر اسے کہا جاتا ہے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ سے پوچھ رہے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے ، ہائے میں نہیں جانتا ۔ تو فرشتے کہتے ہیں کہ تو نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ قرآن پاک پڑھا ۔ اسی اثناءمیں آسمان سے ندا آتی ہے کہ یہ جھوٹا ہے اس کیلئے آگ کا بستر بچھا دو اور جہنم کی طرف سے دریچہ کھول دو جسمیں سے اسے جہنم کی گرمی اور گرم ہوائیں آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر کو اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی دائیں طرف کی پسلیاں بائیں اور بائیں طرف کی پسلیاں دائیں طرف نکل جاتی ہیں اور اس کے پاس ایک انتہائی بدصورت گندے لباس اور متعفن جسم والا آدمی آتا ہے اور کہتا ہے پریشانیوں اور بدبختیوں کی خوش خبری قبول کیجیئے ۔ اسی دن کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ تو فاسق و فاجر آدمی کہتا ہے تیرا بھی برا ہو تو کون ہے کہ جس کے چہرے سے شر اور برائی ٹپک رہی ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ” میں تیرا برا عمل ہوں “ اللہ کی قسم ! میں تجھے خوب جانتا ہوں کہ تو برائیوں میں سب سے آگے اور نیکی کرنے میں سب سے پیچھے ہوتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی تجھے برائی کا بدلہ برائی سے دیا ۔ پھر اس پر اندھا ، بہرا اور گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک بہت وزنی ہتھوڑا ہوتا ہے اگر وہ پہاڑ پر مار دے تو پہاڑ مٹی ہو جائے ۔ اس ہتھوڑے سے وہ اسے مارتا ہے حتیٰ کہ وہ بدنصیب آدمی مٹی ہو جاتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ دوبارہ اسے پہلی حالت میں کر دیتے ہیں ، فرشتہ پھر اسے مارتا ہے اور وہ اس قدر چیخ و پکار کرتا ہے کہ انسانوں اور جنات کے علاوہ ہر چیز اسے سنتی ہے ۔ پھر اس کیلئے جہنم کی طرف سے دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا بستر بچھا دیا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ قیامت قائم نہ کیجیئے گا ۔


کیونکہ اسے اپنی تہی دامانی اور محرومی قسمت نظر آ رہی ہوتی ہے بقول شخصے



تو اس دارالعمل سے گر کر تہی دامن چلا عاجز


تیری جانب پھر اے بے سازو سامان کون دیکھے گا




قبر کے بعد اگلی منزل میدان محشر ہے جہاں لوگ قیامت کے روز جمع ہوں گے آپ کیا جانیں کہ قیامت کیا ہے ، رب کائنات نے قرآن کریم میں اس روز کا نقشہ کھینچا ہے ۔
سورہ حج آیت201 میں ارشاد ربانی ہے :
” لوگو ! اپنے رب کی نافرمانی سے بچو ، قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک زلزلہ ہے ۔ اس روز ہر دودھ پلانے والی ماں اپنی اولاد کو بھول جائیگی اور حاملہ عورتیں اپنے حمل گرا دیں گی ۔ لوگ گھبراہٹ میں بدحواس اور مدہوش ہونگے ۔ اس مدہوشی و بدحواسی کا سبب اپنی تہی دامنی اور اللہ کا سخت عذاب ہوگا ۔ “
مزید وضاحت کیلئے قرآن پاک میں سورۃ الواقعہ ، المرسلات ، الحاقۃ ، النبا اور تکویر جیسی سورتوں کا مطالعہ مفید رہے گا ۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

”( مومنوں کی کامرانی اور کافروں کی ہلاکت کی خبریں ) ان لوگوں کیلئے باعث درس و عبرت ہیں جو آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں جس روز تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور نامہ ہائے اعمال سامنے لائے جائینگے ۔ “ ( ھود : 103 )
(( فمنھم شقی وسعید )) ( ھود : 105 )
” اس دن دو ہی قسم کے لوگ ہونگے سعادت مند و بدنصیب و محروم ۔ “
وہ دن پچاس ہزار سال کا ہو گا جس میں لوگوں کو برہنہ پا‘ عریاں بند اور بے ختنہ کیفیت میں میدان محشر میں جمع کیا جائےگا ۔ سورج ایک میل کے فاصلے پر ہو گا اور اس کی تمازت ناقابل برداشت ہوگی ۔ تمام اہل محشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبے ہوئے ہونگے ، کوئی ٹخنوں تک ، کوئی گھٹنوں تک ، کوئی ناف تک اور کوئی منہ تک عرق اعمال میں شرابور ہوگا ۔ ع
نزع کی سختی ، عذاب قبر ، محشر کی تپش
مرحلے کتنے ہیں عمر مختصر کے سامنے
وما ارید الا الاصلاح ، ما استطعت وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب