Pages

Saturday, January 15, 2011

محبت كا تہوار" ويلنٹائن ڈے"

کتاب وسنت کی روشنی میں
بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ وحدہ والصلاة والسلام علی نبينا محمد وعلى آلہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسان إلي يوم الدين وبعد:
اللہ تعالى كا ارشاد ہے ﴿ [ البقرۃ : 120]" آپ سے یہود ونصارى ہرگزراضی نہیں ہونگے جب تک کہ آپ انکے مذہب کے تابع نہ بن جائیں "
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "تم اپنے سے پہلی امتوں کےطریقوں کی ضرور
باضرور پیروی کروگے, بالشت دربالشت, ہاتہ درہاتہ ’حتی کہ اگر وہ گوہ کےبل میں داخل ہوئے ہونگے تو تم بھی ان کی پیروی میں اسمیں داخل ہوگے, ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہود اورنصارى؟ آپ نے فرمایا: پھراور کون؟ !"
(صحيح بخاري كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة :8/151)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (مَن تَشَبّہ بِقَومٍ فَہُوَ مِنھُم) "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے " (مسند احمد ك2/50)
قارئين كرام! رب كريم كا ہم پر لا کہ لاکہ شکرو احسان ہے کہ ہمیں اس دنیائے آب وگل میں پیدا کرنے کے بعد ہماري رشدوہدایت کے لئے أنبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کیا ,جوحسب ضرورت وقتا فوقتا ًہر قوم میں خدائی پیغام کو پہنچاتے رہے ,اوراس سلسلہ نبوت کے آخری کڑی احمد مجتبى'محمد مصطفے' صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جوکسی خاص قوم کیلئے نہیں ,بلکہ ساری انسانیت کے لئے رشدوہدایت کا چراغ بن کرآئے , جنہوں نے راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم کے روشن شاہراہ پرلا کر گامزن کیا, اورتیئیس سالہ دور نبوت کے اندر رب کریم نے دین کومکمل کردیا اور یہ فرما ن جاری کردیا کہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ﴾ (سورۃ المائدہ: 3 ) " آج میںنے تمہارےلئے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پورکردیا اور تمہارے لئےاسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا "
يہ آیت کریمہ حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ کے دن عرفہ کی تاریخ کو نازل ہوئی
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ شریعت کی تکمیل کا اعلان کردیا گیا ,لہذا اب دین میں کسی کمی وزیادتی کی ضرورت باقی نہ رہی ,اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ :"لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے, ایک کتاب اللہ دوسری میری سنت یعنی حدیث " پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چند مہینے کے بعد انتقال ہوگیا ,اور لوگ چند صدیوں تک دین کے صحیح شاہراہ پر قائم رہے یہاں تک کہ خیرالقرون کا دور ختم ہوگیا , اوررفتہ رفتہ عہد رسالت سے دوری ہوتی گئی اورجہالت عام ہونے لگی , اور دین سے لگاؤ کم ہوتا گیا , مختلف گمراہ اور باطل فرقے جنم لینا شروع کردئیے , یہودو نصارى اور أعداء اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز پکڑتا گیا اور بہت سارے باطل رسم ورواج اورغیر دینی شعائر مسلمانوں نے یہودونصاری کی اندہی تقلید میں اپنا نا شروع کردیا ,چنانچہ انہیں باطل رسم رواج اورغیر
دینی شعائر میں سے عید الحب (ویلنٹائن ڈے ) یا محبت اورعشق وعاشقی کا تہوار ہے
جسکوموجودہ دورمیں ذرائع إبلاغ ( انٹرنٹ, ٹیلی ویژن, ریڈیو, اخباروجرائد ) کے ذریعہ پوری دنیا میں بڑے ہی خوشنما اورمہذب انداز میں پیش کیا جارہاہے ,جسمیںنوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کاباہم سرخ لباس میں ملبوس ہوکر گلابی پھولوں, عشقیہ کارڈوں, چاکلیٹ اورمبارکبادی وغیرہ کے تبادلے کے ذریعے عشق ومحبت کا کھلّم کھلا اظہارہوتا ہے ,اوربے حیائی وفحاشی اورزناکاری کے راستوں کو ہموارکیا جاتا ہے ,اوررومی وثنیت اورعیسائیت کے باطل عقیدے اورتہوارکو فروغ وتقویت دی جاتی ہے,اور مسلمان کافروں کی اند ھی تقلید کرکے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غضب وناراضگی کا مستحق ہوتا ہے.
آئیے ہم آپ کو اس تہو ار کی حقیقت وپس منظر اور اسلامی نقطہ نظرسے اسکے حکم کے بارے میں بتاتے چلیں تاکہ اس اندھی رسم ورواج کا مسلم معاشرے سےجو ایک ناسور کی طرح پھیلتا چلا جارہا ہے ,اورنوخیز عمرکے لڑکوں اور لڑکیوں کو فحاشی و زناکاری کی طرف دعوت دے رہا ہے, اسکا علاج ا ورخاتمہ ہوسکے .
ویلنٹائن ڈے (یوم محبت ) کا پس منظر:
يوم محبت رومن بت پرستوں کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے, جبکہ رومیوں کے یہاں بت پرستی سترہ صدیوں سے زیادہ مدت سے رائج تھی, اوریہ¬( تہوار)رومی بت پرستی
کے مفہوم میں حب الہی سے عبار ت ہے .
اس بت پرست تہوار کے سلسلے میں رومیوں اوران کے وارثین عیسائیوں کے یہا ں بہت ساری داستانیں اورکہانیاں مشہورہیں
لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہوریہ ہے کہ:"رومیوں کےاعتقاد کے مطابق شہرروما کے مؤسِّس (روملیوس) کو ایک دن کسی مادہ بھیڑیا نے دودہ پلایا جس کی وجہ سے اسے قوت فکری اور حلم وبردباری حاصل ہوگئی ,
لہذارومی لوگ اس حادثہ کی وجہ سے ہرسال فروری کے وسط میں اس تہوار کو منایا کرتے ہیں,اسکا طریقہ یہ تھا کہ کتا اور بکری ذبح کرتے اور دو طاقتور مضبوط نوجوان اپنے جسم پر کتے اور بکری کے خون کا لیپ کرتے,اور پھر اس خون کو دودہ سے دہوتے,اور اسکے بعد ایک بہت بڑا قافلہ سڑکوں پرنکلتا جسکی قیادت دونوں نوجوانوں کے ہاتہ میں ہوتی, اوردونوں نوجوان اپنےساتہ ہاتہ میں چمڑے کے دو ٹکڑے لئے رہتے, جو بھی انہیں ملتا اسے اس ٹکڑے سے مارتے اور رومی عورتیں بڑی خوشی سے اس ٹکڑے کی مار اس اعتقاد سے کھاتیں کہ اس سے شفا اور بانجھ پن دور ہو جاتا ہے ,
سینٹ"ویلنٹائن "کا اس تہوار سے تعلق :
سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دو قدیم قربان ہونے والے اشخاص کا نام ہے, اورایک قول کے مطابق ایک ہی شخص تھا جو شہنشاہ" کلاودیس " کےتعذیب کی تاب نہ لا کر 296ء میں ہلاک ہوگیا .اور جس جگہ ہلاک ہوا اسی جگہ 350میلادی میں بطور یادگار ایک کنیسہ تیار کردیا گیا .
جب رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی تو وہ اپنے اس سابقہ تہوار کو مناتے رہے لیکن انہوں نے اسے بت پرستی(محبت الہی) کے مفہوم سے نکا ل کر دوسرے مفہوم "محبت کے شہداء" میںتبدیل کر دیا ,اورانہوں نے اسے محبت وسلامتی کی دعوت دینے والے"سینٹ ویلنٹائن"کے نام کردیا جسے وہ اپنی گمان کے مطابق اسے اس راستے میں شہید گردانتے ہیں .
اور اسے عاشقوں کی عید اورتہوار کا نام بھی دیتے ہیں, اورسینٹ ویلنٹائن کو عاشقوں کا شفارشی اور ان کا نگراں شمار کرتے ہیں.
اس تہوار کےسلسلے میں ان کے باطل اعتقاد ات میں سے یہ تھی کہ: نوجوان اور شادی کی عمر میں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کے ٹکڑوں پرلکھکر ایک برتن میں ڈالتے اوراسے ٹیبل پر رکھ دیا جاتا,اور شادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکوں کو دعوت دی جاتی کہ ا ن میں سے ہرشخص ایک پرچی کونکا لے ,لہذا جس کا نام اس قرعہ میں نکلتا وہ اس لڑکی کی ایک سال تک خدمت کرتا اور وہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے, پھر بعد میں شادی کرلیتے ,یاپھر آئندہ سال اسی تہوار یوم محبت میں دوبارہ قرعہ اندازی کرتے,
لیکن دین نصرانی کےعلماء اس رسم کے بہت زیادہ مخالف تھے,اوراسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کےاخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیا,لہذا اٹلی جہاں پر اسے بہت شہرت حاصل تھی,اسے باطل وناجائز قراردے دیا گیا , پھر بعد میں اٹھارہ اورانیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا , وہ اس طرح کہ کچہ یوروپی ممالک میں کچھ بکڈپوں پر ایک کتاب (ویلنٹائن کے نام ) کی فروخت شروع ہوئی,جس میں عشق ومحبت کے اشعار تہے ,جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کو خطوط میں لکھنے کیلئے استعمال کرتے تھے,اوراس میں عشق ومحبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چند ایک تجاویزبھی درج تھے.
2- ا س تہوار کاایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ :
"جب رومی بت پرستوںنےنصرانیت قبول کرلی ,اور عیسائیت کے ظہور کےبعد اس میں داخل ہوگئے توتیسری صدی میلادی میں رومانی بادشاہ" کلاودیس دوم" نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگادی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے اسکےساتہ جنگوں میں نہیں جاتے تھے .
لیکن سینٹ ولنٹائن نے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا,اور جب کلاودیس کو اس کا علم ہوا تو اسنے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ,اور اسے پھانسی کی سزا دے دی , کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچہ خفیہ ہوا, کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے نزدیک شادی کرنا اورمحبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں , نصاری کے یہاں اس کی شفارش کی گئی کہ نصرانیت پر قائم رہے , اورشہنشاہ نے اسے عیسائیت ترک کرکے رومی(بت پرستی) دین قبول کرنے کو کہا کہ اگر وہ عیسائیت تر ک کردے تو اسے معاف کردیا جائیگا اور وہ اسے اپنا داماد بنا نے کے ساتھ اپنےمقربین میں شامل کرلے گا ,
لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کردیا اورعیسائیت کو ترجیح دی اوراسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا, تو چودہ فروری 270ء کے دن اور پندرہ فروری کی رات اسے پھانسی دے دی گئی , اور اسی دن سے اسے" قدیس" یعنی پاکباز بشب کا خطاب دے دیا گیا .
اسی قصہ کوبعض مصادر نے چند تبدیلی کے سا تہ اس طرح ذکرکیا ہے : ( کہ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے اواخرمیں رومانی بادشاہ "کلاودیس ثانی" کے زیر اہتمام رہتا تھا , کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے پادری کو جیل کےحوالے کردیا ,جیل میں جیل کے ایک چوکیدار کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہوگئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا , یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلیا اور اس کے ساتہ اس کے 46/رشتہ دار بھی نصرانی ہوگئے , وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لئے آتی تھی , جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کردیا , پادری کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے یہ ارادہ کیا کہ اس کا آخری لمحہ اس کی معشوقہ کے ساتہ ہو ,چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ ارسال کیا جس پر لکھا ہوا تھا " نجات دہندہ ویلنٹائن کی طرف سے "پھر اسے 14/فروري 270ء كو پھانسی دے دی گئی –اس کے بعد یورپ کی بہت ساری بستیوں میں ہر سال اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کوکارڈ بھییجنے کا رواج چل پڑا , ایک زمانہ کے بعد پادریوں نے سابقہ عبارت کو اس طرح بدل دیا "پادری ویلنٹائن کےنام سے " انہوں نے ایسا اسلئے کیا تاکہ پادری ویلنٹائن اور اس کی معشوقہ کی یادگارکو زندہ جاوید کردیں )
اور کتاب" قصۃ الحضارۃ" میں ہے کہ : کنیسہ نے گرجا گھر کی ایک ایسی ڈائری تیارکی ہے جس میں ہر دن کسی نہ کسی پادری(قدیس) کا تہوارمقرر کیاجاتا ہے ,اورانگلینڈ میں سینٹ ویلنٹائن کا تہوار موسم سرما کے آخر میں منایا جاتا ہے اورجب یہ دن آتا ہے تو ان کے کہنے کے مطابق جنگلوں میں پرندے بڑی گرمجوشی کے ساتہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں , اورنوجوان اپنی محبوبہ لڑکیوں کے گھروں کی دہلیزپرسرخ گلاب کے پھول رکھتے ہیں ,(قصۃ الحضارۃ تالیف: ول ڈیورنٹ (15-33)
" ویلنٹائن ڈے " کے أہم ترین شعار :
1-دیگر تہواروں کی طرح خوشی وسرور کا اظہار
2- سرخ گلاب کے پھولوں کا تبا دلہ اوروہ یہ کام بت پرستوں کی حب الہی اورنصاری کے باب عشق کی تعبیرمیں کرتے ہیں .اوراسی لئے اسکا نام بھی عاشقوں کا تہوار ہے
3 – اس کی خوشی میں کارڈوں کی تقسیم , اور بعض کارڈوں میں کیوبڈ کی تصویر ہوتی ہے جو ایک بچے کی خیالی تصویر بنائی گئی ہے اس کے دوپیر ہیں اور اس نے تیر کمان اٹھا رکھا ہے ,جسے رومی بت پرست قوم,محبت کا الہ مانتے ہیں ,
4-کارڈوں میں محبت وعشقیہ کلمات کا تبادلہ جو اشعار,یا نثر,یا چھوٹے چھوٹے جملوں کی شکل میں ہوتے ہیں , اور بعض کارڈوں میں گندے قسم کے أقوال اور ہنسانے والی تصویریں ہوتی ہیں , اور عام طورپر اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ"ولنٹائینی ہو جاؤ" جو کہ بت پرستی کے مفہوم سے منتقل ہو کر نصرانی مفہوم کی تمثیل بنتی ہے ,
5-بہت سے نصرانی علاقوں میں دن کے وقت بھی محفلیں سجائی جاتی ہیں ,اوررات کو بھی عورتوں اورمردوں کا رقص وسرور ہوتا ہے ,اور بہت سے لوگ پھول , چاکلیٹ کے پیکٹ وغیرہ بطورتحفہ محبت کرنے والوں , شوہروں اور دوست واحباب کو بھیجتے ہیں .
مذکورہ بالا کہانیوں کے تناظرمیں یہ کہا حاسکتا ھےکہ:
* یہ تہوار اصلاً رومی بت پرستوں کا عقیدہ ہےجسے وہ محبت کے الہ سے تعبیرکرتے ہیں.
*اوررومیوں کے یہاں اس تہوارکی ابتدا قصے کہانیوں اورخرافات پرمشتمل تھی جیسے: مادہ بھیڑیےکا" شہرروم کے مؤسِّس"کودودھ پلانا جو حلم وبردباری اورقوت فکرمیں زیادتی کا سبب بنا ,یہ عقل کے خلاف ہے,کیونکہ حلم وبردباری اورقرت وفکر میں اضافہ کا مالک اللہ تعالى ہے نہ کہ بھیڑیا ,اوراسی طرح یہ عقیدہ کہ ان کے بت برائی اورمصیبت کو دفع کرتے ہیں اورجانوروں کو بھیڑیوں کی شر سے دوررکھتے ہیں باطل اور شرکیہ عقیدہ ہے.
*اس تہوار سے بشب ویلنٹائن کے مرتبط ہونے میں کئی ایک مصادر نے شک کا اظہارکیا ہے اوراسے وہ صحیح شمارنہیں کرتے ,
* کیتھولیک فرقہ کے عیسائی علماء نےاس تہوارکو اٹلی میںمنانے پر پابندی لگا دی , کیونکہ اس سے گندے اخلاق کی اشاعت , اورلڑکوں و لڑکیوں کی عقلوں پر برا اثر پڑتا ہے , اورفحاشی وزناکاری کا دروازہ کھلتا ہے .
مسلمانون کے لئے اس تہوارکا منانا کئی وجہوں سے نا جائزہے :
1-اسلام میں عیدوں کی تعداد محدود و ثابت(زیادتی وکمی ممکن نہیں) اور توقیفی ہیں ,
ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (عیدین اورتہوارشرع اورمنا ہج ومناسک میں سے ہیں جن کے بارےمیں اللہ تعالى کا فرمان ھے:(ہم نے ہر ایک کیلئے طریقہ اور شریعت مقررکی
ہے) اورایک دوسری آیت میں اسطرح ہے : ( ہم نے ہرقوم کے لئے ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس پروہ چلنتےہیں ) مثلا: قبلہ, نمازاور روزے, لہذا ان کا عید اورباقی مناہج میں شریک ہونے میں کوئی فرق نہیں ,اسلئے کہ سارے تہوار میں موافقت کفر میں موافقت ہے, اوراسکے بعض فروعات میں موافقت کفر کی بعض شاخوں میں موافقت ہے,بلکہ عیدین اورتہوار ہی ایسی چیزیں ہیں جن سے شریعتوں کی تمییز ہوتی ہے, اور جن کی ظاہری شعائر ہوتی ہیں, تو اس میں کفارکی موافقت کرنا گویاکہ کفرکے خاص طریقے اور شعار کی موافقت ہے,اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری شروط کے ساتہ اس میں موافقت کفرتک پہنچا سکتی ہے,اور اس کی ابتداء میں کم ازکم حالت یہ ہے کہ یہ معصیت وگناہ کا سبب ہے , اوراسی کی جانب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ کیا ہے:
"یقیناً ہر قوم کےلئے ایک عید اور تہوار ہے اور یہ ہماری عید ہے" ( صحیح بخاری ح -52 9صحیح مسلم ح /893 )دیکہیں الإقتضاء (11/471-472)
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے کفار,بت پرست رومیوں اورعیسائیوں کے ساتہ مشابہت ہے اورکفار چاہے وہ بت پرست ہوں یا اہل کتاب ان سے عمومی مشابہت اختیارکرنا حرام ہے,چاہے وہ مشابہت عقیدہ میں ہو,یا ان کی عادات ورسم ورواج ,یا عید وتہوارمیں , اللہ کا فرما ن ہے ( اورتم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیںآجانےکے بعد تفرقہ ڈالا اوراختلاف کیا انہیں لوگوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہوگا )[آل عمران :105]
2- اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی وہ انہیں میں سے ہے "مسند احمد (2/50)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :"اس حدیث کی کم ازکم حالت ان سے مشابہت کرنے کی تحریم کا تقاضا کرتی ہے , اگر چہ حدیث کا ظاہرمشابہت کرنے والےکے کفر کا متقاضی ہے جیسا کہ اللہ تعالى کا فرمان ہے ( اورجو بھی تم میں سے ان کے ساتہ دوستی کرے یقیناَ وہ انہیں میں سے ہے " (الإقتضاء1/314,)
اجما ع :ابن تيميہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ :"کفار کی عیدوں اورتہواروں میں مشابہت اختیارکرنے کی حرمت پر تما م صحابہ کرام کے وقت سے لیکر اجما ع ہے ,جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسپر علماء کرام کا اجما ع نقل کیا ہے , (الإقتضاء 1/454) اور أحكام أہل الذمة لإبن القيم :2/722-723)
3-اس دورمیں یوم محبت منانے کا مقصد لوگوں کے مابین محبت کی اشاعت ہے چاہے وہ مومن ہوں یا کافر ,حالانکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ کفار سے محبت ومودت اوردوستی کرنا حرا م ہے اللہ کا ارشاد ہے ( اللہ تعالى اورقیامت کے دن پر ایما ن رکھنے والوں کو آپ ,اللہ تعالى اوراسکے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کرتے ہوئے ہرگز نہیں پائیں گے ,اگر چہ وہ کافر ان کے باپ , یا بیٹے, یا ان کے بھائی, یا ان کے قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں )[ المجادلة :22)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں "اللہ سبحانہ وتعالى نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ کوئی بھی مومن ایسا نہیں پایا جاتا جو کافرسے محبت کرتا ہو, لہذا جو مومن بھی کافر سے محبت کرتا اوردوستی لگاتا ہے وہ مومن نہیں, اور ظاہری مشابہت بھی کفارسے محبت کی غماز ہے لہذا یہ بھی حرام ہوگی "( الإقتضاء (1/490)
اسلئے مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ :
1-اس تہوار کامنانا یا منا نے والوں کی محفل میں شرکت ناجائز ہے, حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " جب یہودیوں کی خاص عید ہے اور عیسائیوں کی اپنی خاص عید تو پھر جس طرح ان کی شریعت اور قبلہ میں مسلمان شخص شریک نہیں, اسی طرح ان کے تہواروں میں بھی شریک نہیں ہوسکتا " (مجلۃ الحکمۃ 3/193)
2- اس تہوار کومنا نے یا انکی محفلوں میں شرکت کرنے سے ان کی مشابہت , انہیں خوشی وسرور,اورانکی تعداد میں بڑھوتری اورزیلدتی حاصل ہوتی ہے جوناجائز ہے,
اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( اے ایمان والو!تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ , یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں , یقیناًاللہ تعالى ظالموں کو ہوگز ہدایت نہیں دکھاتا ) [المائدہ:51]
اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
"مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ کفارسے ان کے خصوصی تہواروں میں ان کے لباس ,کھانے, پینے, غسل کرنے, آگ جلانے ,اور اپنی کوئی عبادت اور کام وغیرہ, یا عبادت سے چھٹی کرنے میں ان کفار کی مشابہت کریں . مختصر طور پریہ کہ :ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ کفار کے کسی خاص تہوار کو ان کے کسی شعار کے ساتہ خصوصیت دیں ,بلکہ ان کے تہوار کا دن, مسلمانوں کے یہاں باقی عام دنوں جیسا ہی ہونا چاہئیے" (مجموع الفتاوى :35/329)
3-مسلمانون میں سے جو بھی اس تہوارکو منا تا ہے اس کی معاونت نہ کی جائے بلکہ اسے اس سے روکنا واجب ہے , کیونکہ مسلمانوں کا کفارکے تہوار کو منانا ایک منکر اور برائی ہے جسے روکنا واجب ہے,
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " اور جس طرح ہم ان کے تہواروں میں کفارکی مشابہت نہیں کرتے , تو اس طرح مسلمانوں کی اس سلسلے میں مدد واعانت بھی نہیں کی جائیگی بلکہ انہیں اس سے روکا جائیگا ) الإقتضاء 2/519-520)
تو شیخ الإسلام کے فیصلے کی بنا پر مسلمان تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوم محبت کے تحفے و تحائف کی تجارت کریں, چاہے وہ کوئی معین قسم کا لباس ہو,یا سرخ گلاب کے پھول وغیرہ,اور اسی طرح اگرکسی شخص کو یوم محبت میں کوئی تحفہ دیا جائےتو اس تحفہ کو قبول کرنا بھی جائز نہیں, کیونکہ اسے قبر ل کرنے میں اس تہوار کا اقرار اور اسے صحیح تسلیم کرنا ہے, اور باطل ومعصیت میں مدد ہے, اللہ تعالى کا فرمان ہے "نيكي اورپرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گنا ہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو "[ المائدۃ:3]
4-یوم محبت کی مبارکبادی کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہ مسلمانوں کا تہوار ہے اور نہ ہی عید , اور اگر کوئی مسلمان کسی کو اسکی مبارکبادی بھی دے تو اسے جوابا مبارکبادی بہی نہیں دینی چاہئیے,
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:" اورکفارکے خصوصی شعارجو صرف ان کے ساتہ ہی خاص ہیں ان کی مبارکبادی دینا متفقہ طور پر حرام ہے مثلا :انہیں ان کے تہواروں, یاروزے کی مبارکبادی دیتے ہوئے یہ کہا جائے :آپ کو عید مبارک ,یا آپ کو یہ تہوار مبارک ہو , لہذا اگر اسے کہنے والا کفرسے بچ جائے تو پھر بھی یہ حرام کردہ اشیاء میں سے ہے , اوریہ اسی طرح ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے والے کسی شخص کو مبارکبادی دی جائے , بلکہ یہ اللہ تعالى کے نزدیک شراب نوشی اور بے گناہ شخص کو قتل کرنے اور زنا کرنے سے بھی زیادہ عظیم اور اللہ کو ناراض کرنے والی ہے , اوربہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہاں دین کی کوئی قدر وقیمت نہیں, وہ اس کا ارتکا ب کر تے ہیں, اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا قبیح جرم کیا ہے , لہذا جس نے بھی کسی کو معصیت اور نافرمانی’ یا کفروبدعت پر مبارکبادی دی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالى کے غصہ اورناراضگی پر پیش کردیا" (أحکام أہل الذمۃ 1/441-442)
"يوم محبت" كے بارے میں عصر حاضر کے علماء کرام کا فتوى :
سوال 1- : فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمن حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: کچہ عرصہ سے یوم محبت کا تہوار منایا جانے لگا ہے ,اور خاص کر طالبات میں اس کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے . جو نصاری کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے اس دن پورا لباس ہی سرخ پہنا جاتا ہے اور جوتے تک سرخ ہوتے ہیں , اور آپس میں سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ,ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس طرح کے تہوارمنانے کا حکم بیان کریں اور اس طرح کےمعاملات میں آپ مسلمانوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ اللہ تعالى آپ کی حفاظت کرے -
جواب : وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاتہ وبعد : يوم محبت كا تہوار كئي وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے :
1-یہ بدعي تہوار ہے اور اسکی شریعت میں کوئی اصل نہیں
2-یہ تہوار عشق ومحبت کی طرف دعوت دیتا ہے
3- یہ تہوار دل کو اس طرح کے سطحی رذیل امور میں مشغول کردیتا ہے جو سلف صالحین کے طریقے سے ہٹ کر ہے, لہذا اس دن اس تہوار کی کوئی علامت اور شعار ظاہر کرنا جائزنہیں ’چاہے وہ کھانے پینے میں ہو, یا لباس ,یا تحفے تحائف کے تبادلہ کی شکل میں ہو, یا اسکے علاوہ کسی اور شکل میں ہو ,
اور مسلمان شخص کو چاہئے کہ اپنے دین کو عزیز سمجھے, اورایسا شخص نہ بنے کہ ہر ھانک لگانے والےکے پیچھے چلنا شروع کردے(یعنی ہر ایک کے رائے وقول کی صحیح و غلط کی تمییزکئے بغیر پیروی اوراتباع کرنے لگے) ,میری اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو ہرطرح کے ظاہری وباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے اورہمیں اپنی ولایت میں لے اور توفیق سے نوازے واللہ تعالى أعلم ,
مستقل کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء کا فتوى :
سوال : بعض لوگ ہر سال چودہ فروری کو یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کا تہوار مناتے ہیں اور اس دن آپس میں ایک دوسرے کو سرخ گلاب کے پھول ہدیہ میں دیتے ہیں اور سرخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادی بھی دیتے ہیں, اوربعض مٹھا ئی کی د کان والے سرخ رنگ کی مٹھائی تیارکرکے اس پر دل کا نشان بناتے ہیں , اوربعض دکانداراپنے مال پراس دن خصوصی اعلانات بھی چسپاں کرتے ہیں , تو اس سلسلےمیں آپ کی کیارائےہے؟
جواب: سوال پرغورفکر کرنےکے بعد مستقل کمیٹی نے کہا کہ :کتاب وسنت کی واضح دلائل ,اورسلف صالحین کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں کوئی تیسرا نہیں ,ایک عید الفطر اور دوسرا عید الأضحى,ان دونوں کے علاوہ جوبھی تہواریاعید چاہے کسی عظیم شخصیت سے متعلق ہو,یا جماعت سے ,یا کسی واقعہ سے ,یا اورکسی معنی سے تعلق ہو سب بدعی تہوارہیں ,مسلمان کیلئے انکا منانا, یا اقرار کرنا ,یااس تہوارسے خوش ہونا ,یا اس تہوارکا کسی بھی چیزکے ذریعہ تعاون کرناجائزنہیں ,اسلئے کہ یہ اللہ کے حدود میں زیادتی ہے اورجو شخص بھی حدوداللہ میں زیادتی پید ا کرے گا تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا
اورجب ایجاد کردہ تہوار کے ساتہ یہ مل گیا کہ یہ کفارکے تہواروں میں سے ہے تویہ گنا ہ اورمعصیت ہے اسلئے کہ اس میں کفار کی مشابہت اورموالات ودوستی پائی جاتی ہے , اوراللہ تعالى نے مومنوں کو کفارکی مشابہت اوران سے مودت ومحبت کرنے سے اپنے کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا یہ فرمان ثابت ہے کہ:(من تشبہ بقوم فہومنہم) "جوشخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ہو انھیں میں سے ہے".
اور"محبت کا تہوار"بعینہ مذکورہ بالاجنس یاقبیل سے ہے اسلئے کہ یہ بت پرست نصرانیت کے تہواروں میں سے ہے ,لہذا کسی مسلمان کلمہ گوشخص کیلئے جو اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہواس تہوارکو منانا, یا اقرارکرنا, یا اسکی مبارکبادی دینا جائزنہیں ,بلکہ اللہ ورسول کی دعوت پر لبیک کہتےہوئے ,اورانکی غضب وناراضگی سے دوررہتے ہوئے اس تہوار کا چھوڑنا اوراس سے بچنا ضروری ہے ,اسی طرح مسلمان کیلئے اس تہواریا دیگرحرام تہواروں میں کسی بھی طرح کی اعانت کرنا حرام ہے چا ہے وہ تعاون کھانے,یاپینے, یا خرید وفروخت,یا صنا عت, یا ہدیہ وتحفہ, یا خط وکتابت یا اعلانات وغیرہ کے ذریعہ ہو ,اسلئے کہ یہ سب گناہ وسرکشی میں تعاون, اوراللہ ورسول کی نافرما نی کے قبیل سے ہیں ,اور اللہ تعالى کا فرمان ہے :
"نیکی اور پرہیزگاری کے معاملے میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اورگناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو , اوراللہ تعالى سے ڈرتے رہو ,بے شک اللہ تعالى سخت سزا دینے والا ہے " .[ المائدہ:4]
اورمسلمان کیلئے ہوحالت میں کتاب وسنت کو پکڑے رہنا خا ص طورسے فتنہ وکثرت فساد کے اوقات میں لازم وضروری ہے , اسی طرح ان لوگوں کی گمراہیوں میں واقع ہونے سے بچاؤ اورہوشیاری اختیارکرنا بھی ضروری ہے جن پر اللہ کا غضب ہوا اورجو گمراہ ہیں (یعنی یہود ونصاری), اوران فاسقوں سے بھی جو اللہ کی قدروپاس نہیں رکھتےاورنہ ہی اسلام کی سربلندی چاہتے ,
اورمسلمان کے لئے ضروری کہ وہ ہدایت اوراس پے ثابت قدمی کے لئے اللہ ہی کی طرف رجوع کرے کیونکہ ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے اور اسی کے ہاتہ میں توفیق ہے ,اوراللہ ہمارے نبی محمد انکے آل وأصحاب پر درودوسلام نازل فرمائے آمین !
(دائمی کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء ,فتو ى نمبر:) 21203) بتاریخ 23/11/1420 ھ
*نوٹ:( اس مقالہ كا اكثر مواد چند تبدیلیوں کے سا تہ "www.islamQA.com" سے مأخوذ ہے )