(اَاَتَّخِذُ مِن دُونِہِ اٰلِھَةً اِن یُّرِدنِ الرَّحمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغنِ عَنِّی شَفَاعَتُھُم شَیئًا وَلَا یُنقِذُون(23)اِنِّی اِذَا لَفِی ضَلَالٍ مُبِین(24)اِنِّی اٰمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعُونَ (25) قِیل ادخُلِ الجَنَّةَ قَالَ یٰلَیتَ قَومِی یَعلَمُونَ(26)بِمَاغَفَرَ لِی رَبِّیوَجَعَلَنِیمِنَ المُکرَمِینَ (27)
”اُسے چھوڑ کرکیا میں ایسے معبودوں کاسہارا لوں کہ اگر (میرے) نہایت مہربان(خدا) نے مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو جن کی سفارش میرا کچھ کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھکو بچا ہی سکیں گے اگر میں ایسا کروں تو
صریح گمراہی میں مبتلا ہوجاوں گا۔ میں تو ایمان لایا ہوں تمہارے رب پر ، اس لیے میری سن لو اُس سے کہا گیا ”داخل ہوجا جنت میں “۔ اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے “
﴾اَاَتَّخِذُ مِن دُونِہِ اٰلِھَةً اِن یُّرِدنَ الرَّحمٰنِ بِضُرٍّ لَّا تُغنِ عَنِّی شَفَاعَتُھُم شَیئًا وَلَا یُنقِذُونَ”﴿”اُسے چھوڑ کر کیا میں ایسے معبودوں کا سہارا لوں کہ اگر (میرے) نہایت مہربان (خدا ) نے مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو جن کی سفارش میرا کچھ کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھکو بچا ہی سکیں گے“ ۔
اس استفہام انکاری کے ذریعہ اس مرد مجاہد نے قوم کو سمجھانا چاہا کہ ”اس رحمن و مہربان خدا کے دربار کو چھوڑ کر کسی بے بس کا در وازہ کھٹکھٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہاں اللہ تعالی کی صفت رحمن استعمال کیا گیا کہ میں نے جس کی بندگی میں زندگی گذارنے کا فیصلہ کیا ہے وہ نہایت مہربان ہے اور اگر اس کی انتہائی مہر بانی کے باوجود مجھے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے دو ہی مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ میری کمینگی اس حد کو پار کرچکی ہے کہ ایک نہایت مہربان خدا کا دامن بھی میرے لیے تنگ پڑگیاہے اور میں اس کی سزاکا مستحق ہو چکا ہوں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرا معبود رحمن مجھے نقصان میں ڈال کر میرا امتحان لینا چاہتا ہے ۔ نقصان کی ان دونوں صورتوں میں اگر میں اُ س کے سوا کسی اور کا سہارا تلاش کروں گا تو یہ میری حماقت نہیں تو اور کیا ہوگی؟ اس لیے کہ اللہ تعا لی کے سوا جن کو بھی معبودبنایا جائے گاوہ سرے سے بے اختیا ر ہیں ۔ وہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ ان کی سفارشات اللہ تعالی کے پاس کوئی وقعت رکھتی ہیں ۔ قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر ان کی بے بسی اور بے بضاعتی پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔سورة الزمر میں کہا گیا ﴾قُل اَفَرَایتُم مَاتَد عُو نَ مِن دُو نِ اللّٰہِ اِن اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَل ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہِ اَو اَرَادَنِی بِرَحمَةٍ ھَل ھُنَّ مُم سِکٰتُ رَحمَتِہ قُل حَس بِیَ اللّٰہُ عَلَیہِ یَتَوَکَّلُ ال مُتَوَکِّلُو نَ ﴿ (38) ﴿” ان سے کہو ، جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں ‘ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو‘ مجھے اس کے پہنچائے ہوے نقصان سے بچا لیں گی۔یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کوروک سکیں گی۔ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
سورة بنی اسرائیل میں کہا گیا﴾قُلِ اد عُو الَّذِین زَعَمتُم مِن دُونِہِ فَلَایَملِکُو نَ کَشفَ الضُّرِّعَنکُم وَلَا تَحوِیلًا (56) ﴿” ان سے کہو ، پکار دیکھو ان معبو دوں کو جن کو تم خدا کے سوا (کار ساز) سمجھتے ہو ، وہ کسی تکلیف کو تم سے ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں ۔“
اِنِّی اِذَا لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ” اگر میں ایسا کروں گا تو صریح گمراہی میں مبتلا ہوجاوں گا“۔
عربی زبان میں ”ضلال “ یا ”ضلالة“ کے معنی ہیں منزل مقصود تک پہنچانے والا راستہ کھو دینا،راہ گم کرنا اور بھٹک جانا
اعتقاد و عمل کی ہر بے راہ روی کو اسلام ضلالت سے تعبیر کرتا ہے اس سے بڑھ کر گمراہی اور بے راہ روی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان خود اپنے خالق اور مالک کو پہچان کر اس سے عبدیت کا رشتہ جوڑنے کی بجائے اُنہیں معبود بنالے جو اُس سے بڑھ کر مجبور و بے بس ہیں ،اور جواس کے یا کسی کے حق میں نہ نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کا ہی اختیا رکھتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے یہاں پر ” ضلال “ سے خسران بھی مراد لیا ہے جس سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لینا تو بڑے خسارہ کا سودا ہے “
اِنِّی اٰمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعُو ن ” میں تو ایمان لایا ہوں تمہارے رب پر ، اس لیے میری سن لو“
اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :
ایک یہ کہ اس مرد مومن نے یہ جانتے ہوے بھی کہ قوم اس وقت حق پرستی کے حق میں کسی بھی موقف کے خلاف طیش و غضب میں ہے ، اُن دشمن دین و جان کو خطاب کرتے ہوے ڈنکے کی چوٹ پریہ اعلان کیا کہ جس خدا پر میں ایمان لایا ہوں وہ صرف میرا رب نہیں ہے بلکہ وہ تمہارا رب بھی ہے ، اس لیے میری بات مان لو اور اپنے آپ کو اپنے رب کے سپرد کردو
مفسرین کا ایک طبقہ اس رائے کا حامل بھی ہے کہ یہاں مرد مومن کا خطاب منکرین کی بجائے خود ان مرسلین سے ہے ۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” اے اللہ کے برگزیدہ بندو! جس رب نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے اور جس کی طر ف تم دعوت دے رہے ہو میں اس پر ایمان لاچکا، اس رب کے حضور اب تم ہی میرے ایمان کے گواہ رہنا “
اس مفہوم کی رو سے فَاس مَعُو ن کے معنی فَاشھَدُو الِی کے ہوںگے ۔
ہر زمانے میں انبیاءعلیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے ہوے اُن کے دل و دماغ سے یہی اپیل کرانے کی کوشش کی کہ جس خداکی بندگی کی ہم تمہیں دعوت دے رہے ہیں وہ کوئی نیا خدا نہیں ہے اور نہ یہ خدائی کا کوئی نیا تصورہے کہ تم اس کے نام سے بدک جاو بلکہ وہ تو تمہارا پنا رب ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہارا پالنہار بھی ہے۔یہ تمہارے اسی رب کا پیغام ہے جس کی قدرت کی نشانیاں تم اپنے ارد گرد ہر پل اور ہر سو دیکھتے ہو اور محسوس کرتے ہو !جس کی بیش بہا نعمتوں سے زندگی کی ہر گھڑی لطف اندوز ہوتے ہو اور اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہو! سورة یونس میں اس بات کو اس طرح سمجھایا گیا ہے : ﴾قُل مَن یَر زُقُکُم مِّنَ السّمَاء وَ الاَر ضِ اَمَّن یَّملِکُ السَّمعَ وَ الاَب صَارَ وَمَن یُّخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ یُخرِجُ المَیِّتَ مِنَُ الحَیِّ وَمَن یُّدَبِّرُ الاَمرَ فَسَیَقُولُونَ اللّٰہُ فَقُل اَفَلَا تَتَّقُو نَ (31) فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الحَقُّ فَمَا ذَا بَعد الحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ فَاَنَّی تُصرَفُونَ﴿ (32)
”ان سے پوچھو ، کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ‘ پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پر ہیز نہیں کرتے؟ (جب تم یہ مانتے ہو کہ یہ سب اللہ نے کیا ہے ) تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جارہے ہو؟“
﴾قِیل ادخُلِ الجَنَّةَ قَالَ یٰلَیتَ قَومِی یَعلَمُون بِمَاغَفَرَ لِیرَبِّیوَجَعَلَنِیمِنَ المُکرَمِینَ﴿ ”اُس سے کہا گیا ”داخل ہوجا جنت میں “۔ اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے “
دراصل کسی قوم میں انقلاب کی پہلی کرن اسی وقت نمودار ہوتی ہے جب اس قوم کا کوئی ایک فردبھی،موت کو نگاہوںکے سامنے پاکر بھی اعلان حق کی ہمت کر بیٹھتا ہے ۔ اور کسی قوم کی بدبختی کا یہ آخری مرحلہ ہوتا ہے کہ حق پرستی کے جرم میں وہ کسی پر دست درازی کرے اور اس کو جان سے مار ڈالے ۔
اس مرد مومن کی بے باکی و بے خوفی کو سربراہان باطل برداشت نہ کر سکے اور جیسے ہی اس نے کلمہ حق کا اعلان کیا اوباشانِ قوم اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اس کی روح پرواز نہ کر گئی ۔ بلکہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ اُس کی لاش سے کھلواڑ کرتے رہے ۔ (تفسیر البغوی)
اِدھر ایک شخص کی زندگی کے ساتھ کھیلتے ہوے اور اس کی لاش کی بے حرمتی کرتے ہوے اہل کفر کے دلوں میں اس کو توہین کرنے کے جذبات رقصاں تھے تو اُدھر عالمِ بالا کے باشندے اُس کی روح کے استقبال میں نظریں بچھائے کھڑے تھے اور جیسے ہی اُس کی جان جسم کے قفس سے آزاد ہوی اللہ تعا لی کی جانب سے اس کی آو بھگت اس طرح کی گئی کہ اُ س سے کہا گیا ” اے میرے بندے (جس آزمائش کے مرحلہ سے تو گزر کے آیا ہے اس کے بدلے میں ) تو (میری ) جنت میں داخل ہوجا“ ۔
’جنت ‘ آخرت کی زندگی میں ہر اُ س انسان کے لیے خدائی عطیہ ہے جس نے زمین پر خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گذاری ہے ، جو اپنی خواہشوں اور آرزووں کے خلاف اس لیے زندگی بھر جنگ لڑتا رہا کہ خدا اُس سے راضی ہوجائے اور اس لیے مشکلات ومصائب کاسامنا کیا کہ خدا اس سے خوش ہوجائے ۔ سورة النازعات میں اللہ تعالی نے فرمایا : ﴾وَاَمّا مَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَنَھَی النَّفسَ عَنِ الھَوی(40) فَاِنَّ الجَنَّةَ ھِیَ الماوَی(41) ﴿”اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھاتھا ، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی“
سورة ق ٓ میں کہا گیا ﴾ واُزلِفَةُ الجَنَّةُ لِلمُتَّقِینَ غَیرَبَعِید (31)ھٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِکُلِّ اَوَّابِ حَفِیظِِ (32) مَنخَشِیَ الرَّحمٰنَ بِالغَیبِ وَجَائَ بِقَلبٍ مُّنِیب ٍ(33)اُدخُلُوھَا بِسَلَامٍ ذٰلِکَ یَومُ الخُلُود(34)﴿”اور (اس دن ) جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی ، کچھ بھی دور نہ ہوگی۔(پھر اعلان کیا جائے گا کہ)
”یہ وہی مقام ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا (اور زندگی کے جھمیلوں کے درمیان بھی اپنے ایمان کی )بڑی نگہداشت کرنے والاتھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرا کرتا تھا، اور جو بار بار (اپنے رب کی جانب) پلٹنے والا دل لےکر آیا ہے “
یہاں پر آنے والے ہر مومن کا استقبال اسی شان سے کیا جائے گا جس طرح اس مومن مرد کا کیا گیا ۔سورة الزمر میں بیان کیا گیا ہے”اور جو لوگ اپنے رب کی نا فرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لیجایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ وہ جب وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے، تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ ” سلام ہو تم پر ، بہت اچھے رہے ، داخل ہوجاو اس میں ہمیشہ کے لیے “ ( 73)
اسی بات کو سورة الفجر میں اس طرح کہا گیا : ﴾ یَآاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّةُ( 27) ارجِعِیاِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرضِیَّة( 28) ً فَادخُلِی فِی عِِبَادِی ( 29) وَادخُلِی جَنَّتِی ( 30) ﴿ ”اے نفس مطمئن ، چل اپنے رب کی طرف اِس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے ) خوش اور (اپنے رب کے نزدیک ) پسندیدہ ہے ۔ شامل ہوجا میرے(نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں “ ۔
جنت کو پردہ راز میں رکھا گیا ہے ۔ قرآن مجید کہتا ہے﴾ فَلَا تَعلَمُ نَفس مَّا اُخفِیَ لَھُم مِّن قُرَّةِ اَعیُنِ جَزَاء بِمَا کَانُوا یَعمَلُو نَ ﴿ (سورة السجدة : 17)” پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاءمیں ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے “
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے(اَعدَدتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لَا عَین رَات وَلَا اُذُن سَمِعَت وَلَا خَطَرعَلَی قَلبِ بَشَرٍٍ)
” میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ تیا کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سناہے اور نہ کسی فرد بشر کے دل میں اس کا خیال ہی گذرا ہے “ (بخاری مسلم)
یہی وجہ ہے جب یہ جنت حقیقت بن کر اُس مرد مومن کی نگاہوں میں آئی تو اس کی حیرت و فرحت نا قابل بیا ن تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کے اپنے ایمان و عمل کے بدلے اس کو اس اعزاز و اکرام سے نوازا جائے گا اور رب کریم مغفرت کا ایسا سامان اس کے لیے فراہم کرے گا ۔ مگر ان نعمتوں کو پانے کے بعد بھی اس کے دل میں کوئی غم تھا تو وہ اس کی اس نادان قوم کا تھا جس نے اس کی نصیحت کو سننے سے انکار کیا تھا ،ان ناعاقبت اندیشوں کی فکر ہی اُسے جنت میں بھی دامن گیر رہی ، اک حسرت تھی من میں کہ کاش میری قوم بھی جانتی کہ یہاں اللہ تعالی نے اپنے ماننے والوں کے لیے کیسی کیسی نعمتیں تیار رکھی ہیں ، کاش میرے لوگ جان لیتے کہ یہاں اس کی بخششیں کس کس رنگ میں ہویدا ہیں ۔اس کی اسی تمنا اور حسرت کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیا ن کیا : ﴾ قَالَ يا ليت قَومِی یَعلَمُونَ بِمَاغَفَرَ لِی رَبِّی وَجَعَلَنِی مِنَ المُکرَمِینَ﴿ ” اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے“
”جنت“ مقام عزت ہے ۔”جنت“ مقام نوازش ہے ۔ ”جنت“ مقام تکریم ہے ۔جنہوں نے اللہ تعالی کی خاطر اس دنیا میں عوامی ذلت کو برداشت کیا ، جنہوں نے یہاں پر اللہ تعالی کی اطاعت کو قبول کیا جنت میں ان کے احترام و اکرام میں کوئی کمی نہ ہوگی ، چاق چوبند خدائی ہرکارے جنت کے طول عرض میں پھیلے ہوے ہوںگے جو ہر قدم اور ہر پل ان کی خدمت و تکریم کے لیے تیار رہیں گے ۔ سورة المعارج میں ان جنتیوں کی تعریف کرتے ہوے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :﴾ اُ و لٰئِکَ فِی جَنَّاتٍ مُّکرَمُونَ﴿ ” یہ لوگ عزت کے ساتھ باغوں میں رہیں گے“
اعجاز الدین عمری
”اُسے چھوڑ کرکیا میں ایسے معبودوں کاسہارا لوں کہ اگر (میرے) نہایت مہربان(خدا) نے مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو جن کی سفارش میرا کچھ کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھکو بچا ہی سکیں گے اگر میں ایسا کروں تو
صریح گمراہی میں مبتلا ہوجاوں گا۔ میں تو ایمان لایا ہوں تمہارے رب پر ، اس لیے میری سن لو اُس سے کہا گیا ”داخل ہوجا جنت میں “۔ اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے “
﴾اَاَتَّخِذُ مِن دُونِہِ اٰلِھَةً اِن یُّرِدنَ الرَّحمٰنِ بِضُرٍّ لَّا تُغنِ عَنِّی شَفَاعَتُھُم شَیئًا وَلَا یُنقِذُونَ”﴿”اُسے چھوڑ کر کیا میں ایسے معبودوں کا سہارا لوں کہ اگر (میرے) نہایت مہربان (خدا ) نے مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو جن کی سفارش میرا کچھ کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھکو بچا ہی سکیں گے“ ۔
اس استفہام انکاری کے ذریعہ اس مرد مجاہد نے قوم کو سمجھانا چاہا کہ ”اس رحمن و مہربان خدا کے دربار کو چھوڑ کر کسی بے بس کا در وازہ کھٹکھٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہاں اللہ تعالی کی صفت رحمن استعمال کیا گیا کہ میں نے جس کی بندگی میں زندگی گذارنے کا فیصلہ کیا ہے وہ نہایت مہربان ہے اور اگر اس کی انتہائی مہر بانی کے باوجود مجھے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے دو ہی مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ میری کمینگی اس حد کو پار کرچکی ہے کہ ایک نہایت مہربان خدا کا دامن بھی میرے لیے تنگ پڑگیاہے اور میں اس کی سزاکا مستحق ہو چکا ہوں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرا معبود رحمن مجھے نقصان میں ڈال کر میرا امتحان لینا چاہتا ہے ۔ نقصان کی ان دونوں صورتوں میں اگر میں اُ س کے سوا کسی اور کا سہارا تلاش کروں گا تو یہ میری حماقت نہیں تو اور کیا ہوگی؟ اس لیے کہ اللہ تعا لی کے سوا جن کو بھی معبودبنایا جائے گاوہ سرے سے بے اختیا ر ہیں ۔ وہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ ان کی سفارشات اللہ تعالی کے پاس کوئی وقعت رکھتی ہیں ۔ قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر ان کی بے بسی اور بے بضاعتی پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔سورة الزمر میں کہا گیا ﴾قُل اَفَرَایتُم مَاتَد عُو نَ مِن دُو نِ اللّٰہِ اِن اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَل ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہِ اَو اَرَادَنِی بِرَحمَةٍ ھَل ھُنَّ مُم سِکٰتُ رَحمَتِہ قُل حَس بِیَ اللّٰہُ عَلَیہِ یَتَوَکَّلُ ال مُتَوَکِّلُو نَ ﴿ (38) ﴿” ان سے کہو ، جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں ‘ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو‘ مجھے اس کے پہنچائے ہوے نقصان سے بچا لیں گی۔یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کوروک سکیں گی۔ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
سورة بنی اسرائیل میں کہا گیا﴾قُلِ اد عُو الَّذِین زَعَمتُم مِن دُونِہِ فَلَایَملِکُو نَ کَشفَ الضُّرِّعَنکُم وَلَا تَحوِیلًا (56) ﴿” ان سے کہو ، پکار دیکھو ان معبو دوں کو جن کو تم خدا کے سوا (کار ساز) سمجھتے ہو ، وہ کسی تکلیف کو تم سے ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں ۔“
اِنِّی اِذَا لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ” اگر میں ایسا کروں گا تو صریح گمراہی میں مبتلا ہوجاوں گا“۔
عربی زبان میں ”ضلال “ یا ”ضلالة“ کے معنی ہیں منزل مقصود تک پہنچانے والا راستہ کھو دینا،راہ گم کرنا اور بھٹک جانا
اعتقاد و عمل کی ہر بے راہ روی کو اسلام ضلالت سے تعبیر کرتا ہے اس سے بڑھ کر گمراہی اور بے راہ روی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان خود اپنے خالق اور مالک کو پہچان کر اس سے عبدیت کا رشتہ جوڑنے کی بجائے اُنہیں معبود بنالے جو اُس سے بڑھ کر مجبور و بے بس ہیں ،اور جواس کے یا کسی کے حق میں نہ نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کا ہی اختیا رکھتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے یہاں پر ” ضلال “ سے خسران بھی مراد لیا ہے جس سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لینا تو بڑے خسارہ کا سودا ہے “
اِنِّی اٰمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعُو ن ” میں تو ایمان لایا ہوں تمہارے رب پر ، اس لیے میری سن لو“
اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :
ایک یہ کہ اس مرد مومن نے یہ جانتے ہوے بھی کہ قوم اس وقت حق پرستی کے حق میں کسی بھی موقف کے خلاف طیش و غضب میں ہے ، اُن دشمن دین و جان کو خطاب کرتے ہوے ڈنکے کی چوٹ پریہ اعلان کیا کہ جس خدا پر میں ایمان لایا ہوں وہ صرف میرا رب نہیں ہے بلکہ وہ تمہارا رب بھی ہے ، اس لیے میری بات مان لو اور اپنے آپ کو اپنے رب کے سپرد کردو
مفسرین کا ایک طبقہ اس رائے کا حامل بھی ہے کہ یہاں مرد مومن کا خطاب منکرین کی بجائے خود ان مرسلین سے ہے ۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” اے اللہ کے برگزیدہ بندو! جس رب نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے اور جس کی طر ف تم دعوت دے رہے ہو میں اس پر ایمان لاچکا، اس رب کے حضور اب تم ہی میرے ایمان کے گواہ رہنا “
اس مفہوم کی رو سے فَاس مَعُو ن کے معنی فَاشھَدُو الِی کے ہوںگے ۔
ہر زمانے میں انبیاءعلیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے ہوے اُن کے دل و دماغ سے یہی اپیل کرانے کی کوشش کی کہ جس خداکی بندگی کی ہم تمہیں دعوت دے رہے ہیں وہ کوئی نیا خدا نہیں ہے اور نہ یہ خدائی کا کوئی نیا تصورہے کہ تم اس کے نام سے بدک جاو بلکہ وہ تو تمہارا پنا رب ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہارا پالنہار بھی ہے۔یہ تمہارے اسی رب کا پیغام ہے جس کی قدرت کی نشانیاں تم اپنے ارد گرد ہر پل اور ہر سو دیکھتے ہو اور محسوس کرتے ہو !جس کی بیش بہا نعمتوں سے زندگی کی ہر گھڑی لطف اندوز ہوتے ہو اور اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہو! سورة یونس میں اس بات کو اس طرح سمجھایا گیا ہے : ﴾قُل مَن یَر زُقُکُم مِّنَ السّمَاء وَ الاَر ضِ اَمَّن یَّملِکُ السَّمعَ وَ الاَب صَارَ وَمَن یُّخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ یُخرِجُ المَیِّتَ مِنَُ الحَیِّ وَمَن یُّدَبِّرُ الاَمرَ فَسَیَقُولُونَ اللّٰہُ فَقُل اَفَلَا تَتَّقُو نَ (31) فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الحَقُّ فَمَا ذَا بَعد الحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ فَاَنَّی تُصرَفُونَ﴿ (32)
”ان سے پوچھو ، کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ‘ پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پر ہیز نہیں کرتے؟ (جب تم یہ مانتے ہو کہ یہ سب اللہ نے کیا ہے ) تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جارہے ہو؟“
﴾قِیل ادخُلِ الجَنَّةَ قَالَ یٰلَیتَ قَومِی یَعلَمُون بِمَاغَفَرَ لِیرَبِّیوَجَعَلَنِیمِنَ المُکرَمِینَ﴿ ”اُس سے کہا گیا ”داخل ہوجا جنت میں “۔ اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے “
دراصل کسی قوم میں انقلاب کی پہلی کرن اسی وقت نمودار ہوتی ہے جب اس قوم کا کوئی ایک فردبھی،موت کو نگاہوںکے سامنے پاکر بھی اعلان حق کی ہمت کر بیٹھتا ہے ۔ اور کسی قوم کی بدبختی کا یہ آخری مرحلہ ہوتا ہے کہ حق پرستی کے جرم میں وہ کسی پر دست درازی کرے اور اس کو جان سے مار ڈالے ۔
اس مرد مومن کی بے باکی و بے خوفی کو سربراہان باطل برداشت نہ کر سکے اور جیسے ہی اس نے کلمہ حق کا اعلان کیا اوباشانِ قوم اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اس کی روح پرواز نہ کر گئی ۔ بلکہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ اُس کی لاش سے کھلواڑ کرتے رہے ۔ (تفسیر البغوی)
اِدھر ایک شخص کی زندگی کے ساتھ کھیلتے ہوے اور اس کی لاش کی بے حرمتی کرتے ہوے اہل کفر کے دلوں میں اس کو توہین کرنے کے جذبات رقصاں تھے تو اُدھر عالمِ بالا کے باشندے اُس کی روح کے استقبال میں نظریں بچھائے کھڑے تھے اور جیسے ہی اُس کی جان جسم کے قفس سے آزاد ہوی اللہ تعا لی کی جانب سے اس کی آو بھگت اس طرح کی گئی کہ اُ س سے کہا گیا ” اے میرے بندے (جس آزمائش کے مرحلہ سے تو گزر کے آیا ہے اس کے بدلے میں ) تو (میری ) جنت میں داخل ہوجا“ ۔
’جنت ‘ آخرت کی زندگی میں ہر اُ س انسان کے لیے خدائی عطیہ ہے جس نے زمین پر خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گذاری ہے ، جو اپنی خواہشوں اور آرزووں کے خلاف اس لیے زندگی بھر جنگ لڑتا رہا کہ خدا اُس سے راضی ہوجائے اور اس لیے مشکلات ومصائب کاسامنا کیا کہ خدا اس سے خوش ہوجائے ۔ سورة النازعات میں اللہ تعالی نے فرمایا : ﴾وَاَمّا مَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَنَھَی النَّفسَ عَنِ الھَوی(40) فَاِنَّ الجَنَّةَ ھِیَ الماوَی(41) ﴿”اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھاتھا ، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی“
سورة ق ٓ میں کہا گیا ﴾ واُزلِفَةُ الجَنَّةُ لِلمُتَّقِینَ غَیرَبَعِید (31)ھٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِکُلِّ اَوَّابِ حَفِیظِِ (32) مَنخَشِیَ الرَّحمٰنَ بِالغَیبِ وَجَائَ بِقَلبٍ مُّنِیب ٍ(33)اُدخُلُوھَا بِسَلَامٍ ذٰلِکَ یَومُ الخُلُود(34)﴿”اور (اس دن ) جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی ، کچھ بھی دور نہ ہوگی۔(پھر اعلان کیا جائے گا کہ)
”یہ وہی مقام ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا (اور زندگی کے جھمیلوں کے درمیان بھی اپنے ایمان کی )بڑی نگہداشت کرنے والاتھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرا کرتا تھا، اور جو بار بار (اپنے رب کی جانب) پلٹنے والا دل لےکر آیا ہے “
یہاں پر آنے والے ہر مومن کا استقبال اسی شان سے کیا جائے گا جس طرح اس مومن مرد کا کیا گیا ۔سورة الزمر میں بیان کیا گیا ہے”اور جو لوگ اپنے رب کی نا فرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لیجایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ وہ جب وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے، تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ ” سلام ہو تم پر ، بہت اچھے رہے ، داخل ہوجاو اس میں ہمیشہ کے لیے “ ( 73)
اسی بات کو سورة الفجر میں اس طرح کہا گیا : ﴾ یَآاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّةُ( 27) ارجِعِیاِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرضِیَّة( 28) ً فَادخُلِی فِی عِِبَادِی ( 29) وَادخُلِی جَنَّتِی ( 30) ﴿ ”اے نفس مطمئن ، چل اپنے رب کی طرف اِس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے ) خوش اور (اپنے رب کے نزدیک ) پسندیدہ ہے ۔ شامل ہوجا میرے(نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں “ ۔
جنت کو پردہ راز میں رکھا گیا ہے ۔ قرآن مجید کہتا ہے﴾ فَلَا تَعلَمُ نَفس مَّا اُخفِیَ لَھُم مِّن قُرَّةِ اَعیُنِ جَزَاء بِمَا کَانُوا یَعمَلُو نَ ﴿ (سورة السجدة : 17)” پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاءمیں ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے “
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے(اَعدَدتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لَا عَین رَات وَلَا اُذُن سَمِعَت وَلَا خَطَرعَلَی قَلبِ بَشَرٍٍ)
” میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ تیا کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سناہے اور نہ کسی فرد بشر کے دل میں اس کا خیال ہی گذرا ہے “ (بخاری مسلم)
یہی وجہ ہے جب یہ جنت حقیقت بن کر اُس مرد مومن کی نگاہوں میں آئی تو اس کی حیرت و فرحت نا قابل بیا ن تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کے اپنے ایمان و عمل کے بدلے اس کو اس اعزاز و اکرام سے نوازا جائے گا اور رب کریم مغفرت کا ایسا سامان اس کے لیے فراہم کرے گا ۔ مگر ان نعمتوں کو پانے کے بعد بھی اس کے دل میں کوئی غم تھا تو وہ اس کی اس نادان قوم کا تھا جس نے اس کی نصیحت کو سننے سے انکار کیا تھا ،ان ناعاقبت اندیشوں کی فکر ہی اُسے جنت میں بھی دامن گیر رہی ، اک حسرت تھی من میں کہ کاش میری قوم بھی جانتی کہ یہاں اللہ تعالی نے اپنے ماننے والوں کے لیے کیسی کیسی نعمتیں تیار رکھی ہیں ، کاش میرے لوگ جان لیتے کہ یہاں اس کی بخششیں کس کس رنگ میں ہویدا ہیں ۔اس کی اسی تمنا اور حسرت کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیا ن کیا : ﴾ قَالَ يا ليت قَومِی یَعلَمُونَ بِمَاغَفَرَ لِی رَبِّی وَجَعَلَنِی مِنَ المُکرَمِینَ﴿ ” اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے“
”جنت“ مقام عزت ہے ۔”جنت“ مقام نوازش ہے ۔ ”جنت“ مقام تکریم ہے ۔جنہوں نے اللہ تعالی کی خاطر اس دنیا میں عوامی ذلت کو برداشت کیا ، جنہوں نے یہاں پر اللہ تعالی کی اطاعت کو قبول کیا جنت میں ان کے احترام و اکرام میں کوئی کمی نہ ہوگی ، چاق چوبند خدائی ہرکارے جنت کے طول عرض میں پھیلے ہوے ہوںگے جو ہر قدم اور ہر پل ان کی خدمت و تکریم کے لیے تیار رہیں گے ۔ سورة المعارج میں ان جنتیوں کی تعریف کرتے ہوے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :﴾ اُ و لٰئِکَ فِی جَنَّاتٍ مُّکرَمُونَ﴿ ” یہ لوگ عزت کے ساتھ باغوں میں رہیں گے“
اعجاز الدین عمری
اہم مراجع و مصادر:
تفسیر ابنِ کثیر از امام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرالدمشقی
تفسیر قرطبی (جامع لاحکام القرآن) از امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی
تفسیرطبری(جامع ا لبیان فی تفسیر القرآن) ازامام ابو جعفر محمدبن جریرالطبری
فتح القدیر از امام محمدعلی الشوکانی
فتح الباری از اشہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی
فی ظلال القرآن از شہید سید قطب
اضواءالبیان فی ایضاح القرآن از محمد الامین الشنقیطی
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی
تدبّرِ قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی