Pages

Monday, January 31, 2011

ماں جی کی یاد میں

ماں …. زبان سے نکلا ہوا لفظِ ماں‘ایک ایسے احساس کا اظہار ہے کہ جس سے دل اور دماغ کو سکون ملتا ہے۔ماں…. جس کا ذکر لبوں پر آتے ہی خوشی چھا جاتی ہے۔ماں….جسے جنت کی کنجی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جنت تو جنت ہے لیکن جنت میں خوشبو دار پھول نہ ہو، تو جنت کیسا ….؟ جنت کا پھول ماں ہے۔ اسی لیے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دیا گیا ہے۔
یہ لفظ اندر کائنات کی تمام تر مٹھاس ، شیرینی اور نرماہٹ لئے ہوئے ہے ، یہ دنیا کا سب سے پرخلوص اور چاہنے والا رشتہ ہے ۔۔۔ ماں ٹھنڈک ہے ۔۔۔ سکون ہے ۔۔۔ محبت ہے ۔۔۔ چاہت ہے
ماں‌ٹھنڈی چھائوں ہے ، کعبہ ہے ، بخشش کی راہ ہے ،
میں دنیا میں کہیں بھی ھوں
سب سے دور
مگر ایک ھستی ھے
جو میرے آس پاس ھوتی ھے
میری خوشیوں میں خوش ھوتی
میرے دکھ میں تڑپتی
جس کے سجدے میرے لیے
جس کی دعائیں میرے لیے
جس کے آ نسو
سب منتیں مرادیں
جس کی ھر آرزو ھے میرے لیے
ھر پریشانی میں اس کی دعائیں
میرے سر پہ سایا کرتی ھیں
کبھی ستارہ کبھی جگنو بن کر چکمتی ھیں
محبتوں کا خزانہ ھے
میری ماں

ماں،جنت کو پانے کا ایک آسان راستہ۔ماں،جس کا احساس انسان کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے۔ماں،ایک پھول کہ جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ماں،ایک سمندر جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سلتا ہے مگر کبھی کم نہین ہو سکتا۔ماں،ایک ایسی دولت جس کو پانے کے بعد انسان مغرور ہو جاتا ہے۔ماں،ایک ایسی دوست جو کبھی بیوفا نہیں ہوتی۔ماں،ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ماں،ایک ایسا خواب جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ماں،ایک ایسی محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ساتھ یہ اور بڑھتی رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی پرچھائی جو ہر مصیبت سے ہمیں بچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی محافظ جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے
سے بچاتی ہے۔ماں ایک دُعا جو ہر کسی کی لب پر ہر وقت رہتی ہے۔

ماں،ایک ایسی خوشی جو کبھی غم نہیں دیتی۔
صبر کرتی تو ہوں صبر آتا نہیں
سامنے تیری صورت کوئی بھاتا نہیں
تیرا پیغام اب کوئی لاتا نہیں
درد دل ہائے رے میرا جاتا نہیں
یہ تو ممکن نہیں بھول جاؤں تجھے رات دن
فکر ہے کیسے پاؤں تجھے
دل میں کیا ہے تمنا بتاؤں تجھے
اپنے اللہ سے مانگ لاؤں تجھے

حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کی وفات ھوگی اور جب اپ علیہ السلام اللہ تعالی سے کلام کرنے طور پر چڑھے تو اللہ تعالی نے کھا ؛اے موسی اب تم سنبھل کر انا تمھارہ ماں کا انتقال ھوگیا ھے جب تم ھمارے پاس اتے تھے تو تمھاری ماں سجدہ میں جاکر ھم سے دعا کرتی تھی ؛اے سب جھانھوں کے رب میرے بیٹے سے کوی چوک ھوجاے تو اسے معاف کردینا.
ماں ھی وہ ھستی ھے جس کو رب ذولجلال نے تخلیق کا اعجاز عطا کرکے اپنی صفات سے بھرہ مند فرمایا۔ اس کا وجود محبت کا وہ بیکراں سمندر ھے کہ جس کی وسعت کا اندازہ نھیں کیا جاسکتا۔ اسکا دل اتنا وسیع ھے کہ سارے زمانے کے
دکھ آلام بھی سمٹ لیں تو اس کی وسعت میں فرق نہیںایک ایسا سابیان عافیت
جس کی چھاوں میں کوی دکھ پریشانی ھمیں چھو نھیں سکتی۔
ثابت ھوا کہ ماں وہ عظیم ھستی ھے جس کی دعاوں کی ھم جیسے گنھگاروں کو ھی نھیں پیغبروں، انبیا اکرام، اولیا علہہ رحمہ کو بھی ضرورت ھوتی ھے۔ جس کے لبوں سے نکلی دعا بارگاہ الھی میں شرف قبولیت حاصل کرتی ھے۔
٭ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ (حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

محبت کی ترجمانی کرنے والی کوئی چیز ہے تووہ پیاری ماں ہے۔

ماں کیسے بنی ؟
ایک دن آسمانوں کے فرشتوں نے رب سے کہا ۔۔۔ زمینی مخلوق سےکچھ ہمیں دکھلایے ۔۔۔ رب نے حجاب اُٹھایا ۔۔ فرشتوں کو بلایا ۔۔۔ رب نے ایک مجسمہ دکھایا ۔۔۔ ایک مجسمہ ۔۔۔ خوبصورت روشن مجسمہ ۔۔۔ جسے کلیوں کی معصومیت ۔۔۔ چاندنی سے ٹھنڈک ۔۔۔گلاب سے رنگت ۔۔۔ قمری سے نغمہ ۔۔۔ غاروں سے خاموشی ۔۔۔ آبشاروں سے موسیقی ۔۔۔ پھول کی پتی سے نزاکت ۔۔۔ کوئل سے راگنی۔۔۔ بلبل سے چہچہاہٹ ۔۔۔ چکوری سے بے چینی ۔۔۔ لاجونتی سے حیا ۔۔۔ پہاڑوں سے استقامت ۔۔۔ آفتاب سے تمازت ۔۔۔ صحرا سے تشنگی ۔۔۔ شفق سے سرخی ۔۔۔ شہد سے حلاوت ۔۔۔ شب سے گیسو کے لئے سیاہی ۔۔۔ سرو سے بلند قامتی لےکر بنایا ۔ اس کی آنکھوں میں دو دیئے روشن تھے ، اس کے قدموں تلے گھنے باغات تھے ، اس کے ہاتھوں میں دعائوں کی لکیریں تھیں ۔۔۔ اس کے جسم سے رحمت و برکت کی بو آتی تھی ۔۔۔ اس کے دم میں رحم کا دریا موجزن تھا ۔۔۔ اللہ تعالٰی نے اسے ایک گوشت کا لوتھڑا عطا کیا ( یعنی بچہ )‌اس مجسمے نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے اور خود اندھا ہوگیا۔
اپنی بہار کے سب پھول اسے دے دیے ۔
اپنے ہاتھوں کی دعائوں کو اس کے سر پر سایہ بنایا ۔
اپنے قدموں‌کے گھنے باغات اُٹھاکر اسے دے دیے ۔
اپنا سکون اسے دے کر خود کو بے سکون ہوگیا۔
اپنی ہنسی اس کے نام کردی ، خود خاموشی لے لی ۔
سُکھ اسے دے دیا اور خود آنسو لے لئے ۔
فرشتوں نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔ یا اللہ یہ کیا ہے ؟
اللہ نے فرمایا یہ ماں‌ ہے ۔

اللہ نے فرمایا یہ ماں‌ ہے ۔

قدرت کے اس حسین تحفے کی آج تعریف کرنے کی کوشش کر رھی ھوں
مگر مجھے وہ الفاظ نہیں ملتے کہ جن میں اظہار کروں، ہر لفظ اسکی عظمت کے سامنے چھوٹا لگ رہا ہے ،رشتوں کو پیار کی ڈوری میں پروئے ہوئے ہر لحظہ خیرکی طلبگار وہ ہستی میری ماں ہے جس کے احسانات کا بدلہ کبھی بھی نہ چکا سکوں
گی ماں اگر ایک طرف سچائی کے جذبے کا نام ہے تو دوسری طرف محبت کی باز گشت بھی یہیں سے آتی ہے
بڑا محروم موسم ہے تمہاری یاد کا اے ماں
نجانے کس نگر کو چھوڑ کر چل دی ہو مجھ کو ماں!
شفق چہروں میں اکثر ڈھونڈتی رہتی ہوں ، میں تم کو
کسی کا ہاتھ سر پہ ہو ،تو لگتا ہے تم آئی ہو
کوئی تو ہو ، جو پوچھے ،کیوں ترے اندر اداسی ہے
مرے دل کے گھروندے کی صراحی کتنی پیاسی ہے
مجھے جادوئی لگتی ہیں تمہاری، قربتیں اب تو
مری یادوں میں رہتی ہیں تمہاری شفقتیں اب تو
کبھی لگتا ہے ،خوشبو کی طرح مجھ سے لپٹتی ہو
کبھی لگتا ہے یوں، ماتھے پہ بوسے ثبت کر تی ہو
کوئی لہجہ، ترے جیسا، مرے من میں اتر جائے
کوئی آواز، میری تشنگی کی گود ،بھر جائے
کوئی ایسے دعائیں دے کہ جیسے تان لہرائے
کسی کی آنکھ میں ، آنسو لرزتے ہوں ، مری خاطر
مگر جب لوٹتی ہوں ساری یادیں لے کے آنچل میں
تو سایہ تک نہیں ملتا کسی گنجان بادل میں
کوئی لوری نہیں سنتی ہوں میں اب دل کی ہلچل میں
تمہاری فرقتوں کا درد بھر لیتی ہوں کاجل میں
کہیں سے بھی دعاؤں کی نہیں آتی مجھے خوشبو
مری خاطر کسی کی آنکھ میں، اترے نہیں آنسو
محبت پاش نظروں سے مجھے تم بھی تکا کرتیں
کوئی موہوم سا بھی سلسلہ، باقی کہاں باہم
کہ اب برسیں مرے نیناں تمہاری دید کو چھم چھم
دلاؤں ایک ٹوٹے دل سے چاہت کا یقیں کیسے
مری ماں آسمانوں سے تجھے لاؤں یہاں کیسے
نجانے کون سی دنیا میں جا کے بس گئی ہو ماں
بڑا محروم موسم ہے تمہاری یاد کا،
اے ماں۔۔۔!!

دکھ ھے ایسا کہ لگتا ھے دل پھٹ جائے گا
غم ھے ایسا کہ سہا نہیں جا رہا
زندگی سے دل اچاٹ ھو گیا ھے
وہ پرنور محبت سے بھرا شفیق مہربان چہرہ آنکھوں سے اوجھل ھو گیا ھے
جس کی طرف میں دیکھتے ہی سارے دکھ درد بھول جایا کرتی تھی
جس کی طرف اک نگاہ کرنے سےدل
خوشی سے کھل جایا کرتا
ماں میں تجھے کہاں سے ڈھونڈکے لاؤں
میرے سر پہ جو تیری دعاؤں کی چادر تھی
وہ چھن گی مجھ سے
میں اکیلی رہ گی ھوں ماں
ہر پل اداس تیرے بغیر
زخم ابھی بالکل تازہ ھے۔دکھ کا ایک پہاڑ ھے
سہنے کوساری عمر ھے لیکن برداشت کی طاقت نھیں۔۔
کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ زخم مندمل ھو جاتے ہیں
مگر یہ دکھ تو عمر کے ساتھ ہی ھے
آج نجانے کتنا وقت گزر گیا اپنی جنت سے دور ھوۓ
وہ پیارا حسین پرنور چہرہ اپنی پوری جزہیات کے ساتھ آنکھوں کے سامنے رھتا ھے۔
جاگتے سوتے میں بھی اور معمولی تکلیف پر بھی ہاۓ ماں جی ہی کیوں منہ سے نکالتا ھے

میں جدھر گیا میں جہاں رہا
میرے ساتھ تھا
وہی ایک سایہ مہرباں
وہ جو ایک پارہ ابر تھا سر آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرف یقین تھا
میرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، میرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میرے غم کو جڑ سے اُکھاڑھتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، میرے نام پر
وہ سو گئی
وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
تیرے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاء ہے
تیری دین ہے تیرا مال ہے
مجھے ہے تو اتنا ملال ہے
کہ جب اُسکی ساعت آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں نہ تھا
میرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جاہِ پناہ تھی
میں وہاں نہ تھا
سرِ شام غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں نہ تھا
میرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
میرے خواب سے میری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
تیرے رحم کی نہیں حد کوئی
تیرے عفو کی نہیں انتہا
کے تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کے جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ ازیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
تیرے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
میری التجا ہے تو بس یہی
میری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تیری بخشِشوں کے دِیار میں
میری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں

آخر میں اس شعر کے ساتھ کہ
اے دوست! ماں باپ کے سایے کی ناقدری نہ کر
دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجر کٹ جائے گا

Saturday, January 29, 2011

مانگو تو بس اللہ سے

احمد بن ابي غالب چھٹي صدي ہجري کے بزرگ ہے، لوگ ان کے پاس دعا کيلئے عموما حاضر ہوتے تھے۔

ايک مرتبہ کوئي صاحب ان کي خدمت ميں آئے اور کسي چيز کے متعلق کہا کہ۔۔۔۔
آپ فلاں صاحب سے ميرے لئے وہ چيز مانگ ليجئيے۔

احمد فرمانے لگے ميرے بھائي ميرے ساتھ کھڑے ھوجائيے، دونوں دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ ہي سے کيوں نہ مانگ ليں، کھلا در چھوڑ کر بند دروازے کا رخ کيوں کيا جائے۔
يقينا اللہ کا در ہر وقت کھلا ھے، يقين اور ايمان کي کمزوري ہوتي ہے، کہ اسے چھوڑ کر مخلوق کے بند دروازوں پر کھڑے ہوکر ذلت اٹھائي جائے، اس کھلے دروازے کي طرف رجوع کي عادت تو ڈالئيے، آزما کر تو ديکھئيے۔

سورة یٰسٓ : فہم و تدبر کے آئینہ میں

دوسري قسط


انا نحن نحيي الموتى ونكتب ما قدموا واثارهم وكل شيء احصيناه في امام مبين (يس 12) ”یقینا ہم ہی مُردوں کوزندہ کرنے والے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا ۔ اور ہم نے ہر چیز کو ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“
مردوں کو جلانے کا مسئلہ ہی قیامت ا ورآخرت کے منکرین کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید کے مختلف مقامات میں دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ یہ کام اس کے لیے کتنا آسان ہے:


” اور یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈّیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے اُٹھائے جائیں گے؟ اُن سے کہو تم پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤیا کوئی اور شئے جو تمہارے خیال میں اس سے بھی زیادہ سخت ہو ۔اس کے بعد وہ پوچھیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرےگا؟ جواب میں کہو ”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا “ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے ”اچھا!تو یہ ہوگا کب؟ تم کہدو کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو “ سورة الحج میں اللہ تعالیٰ فرمایا : ” لوگو!اگر تمہیں زندگی بعدِموت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہوکہ ہم نے تم کو مٹّی سے پیدا کیا ہے۔پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ ) ہم تم پر حققیقت کو آشکارا کردیں۔پھر ایک خاص مدّت تک ہم جس( شکل) کو چاہیں رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں اور پھر ایک بچے کی صورت ہم تمہیں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو“(الحج : 5)


یہاں پر اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد موت کو پر زور اسلوب میں بیان کیا ہے کہ ”بروزِ قیامت ہم سبھی مُردوں کو خود ہی زندہ کرنے والے ہیں“


امام ابنِ کثیر رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ جن لوگوں کے دل کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہو چکے ہیںان میں سے جس کو چاہے گا اللہ تعالی ٰبذریعہ ہدایت زندہ کر دے گا۔ جیسے سورة الحدید میں ان لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد جن کے دل ہدایت سے محرومی کی وجہ سے سخت ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ” جان لو کہ اللہ زمین میں جان ڈالتا ہے اس کے مر جانے کے بعد ، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں صاف صاف بتادی ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو“( الحدید : 17)


وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم´﴿” اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا “


مَا قَدَّمُو´ا وہ سارے نیک و بد اعمال جو انہوں نے اپنی زندگیوں میں کیے اور اب ان سے قلم اُٹھا لیا گیا ہے۔ جیسے حدیث میں آیا ہے "جب آدمی کوئی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی اس سے کٹ جاتا ہے"


وَاٰثَارَھُم´ سے وہ اعمال مراد ہیں جن کا اجر و ثواب آدمی کو بعدِ مرگ بھی ملتا رہتا ہے اور انسانی سماج میں بھی ان کا اثر پھیلتا پھولتا رہتا ہے ۔یا اس سے وہ سارے برے اعمال مراد ہیں جن کی نحوست مرنے کے بعد بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور انکا گناہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہوا جاتا ہے۔ پھرسماج کا بھی یہ ناسور بن جاتا ہے۔


آثار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔


جیسے ایک شخص ایک کام کرتا ہے اچھا یا برا ، اس کا ثواب یا گناہ اس کے نامہ عمل میں درج کیا جاتا ہے ۔ پھر اس کا دیکھا دیکھی کچھ دوسرے لوگ بھی اسی (اچھے یا برے ) کام کو کرنے لگتے ہیں جس کا سلسلہ اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔جس کا اجر یا گناہ ان لوگوں کے دفترِ عمل میں لکھے جانے کے ساتھ ساتھ نتیجہ عمل اس شخص کی کتاب میں بھی درج کیا جاتا ہے جو اس عمل کا سبب بنا تھا۔صحیح مسلم کی روایت میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے


یعنی جس کسی نے بھی اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رواج دیا اُسے اپنا اجر تو ملیگا ہی ساتھ میں لوگوں کا اجر بھی اس کے دفتر میں جمع ہوگا جو اس کے بعد بھی اس پر عمل پیرا رہے جبکہ ان کے اجر میں ذرا کمی نہیں کی جائے گی(مسلم) بالکل یہی معاملہ غلط کاموں کو رواج دینے کا بھی ہے ۔ (نوٹ: یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سنّتِ حسنہ کو رواج دینے کا مطلب اسلام کے اندر غیر اسلامی ریت اور روایتوں کو اپنانا اور ان کو رواج دینا نہیں ہے اور نہ اس سے مراد دین میں نئے طریقوں کو ایجاد کرنا ہے ۔ اللہ کہ رسول ا نے فرمایا ہے کہ جس نے بھی ہماری اس شریعت میں کسی نئی چیزکا اضافہ کیا وہ نا قابل قبول ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث سے مطلوب اس سنت کو زندہ کرنا ہے جسے لوگوں نے فراموش کردیا ہو یا کسی بدعت نے اس کی جگہ لی ہو ۔)


آثار کی ایک صورت ایک اور مشہور حدیث میں اس طرح وارد ہوی ہے۔ آپ ا نے فرمایا ” اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث ، من علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ او صدقة جاریة من بعدہ “ جب کوئی آدمی مرجا تا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے عمل کا سلسلہ بھی کٹ جاتا ہے (یعنی اس کا عمل نامہ بند ہوجاتا ہے اور اس میں اجر وثواب کا اندراج رک جاتا ہے) مگر تین چیزوں کا ثواب اس کے نامہ ¿ عمل میں برابر لکھا جاتا رہے گا ان میں سے ایک مرنے والے کا چھوڑا ہوا علم ہے جس سے (اس کے بعد بھی ) استفادہ کیا جائے گا۔ دوسری چیز اسکی چھوڑی ہوی نیک اور صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے اور وہ صدقہ جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ (مسلم)


مفسّر امام ابنِ کثیر رحمه الله نے ’ آثار ‘ کا ایک مطلب اور بھی بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ” اس سے مراد وہ نشانِ قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی راہ میں پڑتے ہیں ۔ اس قول کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام مسلم نے روایت کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ جب مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے ارد گرد کی کچھ زمینیں خالی ہونے لگیں تو بنو سلمہ کے لوگوں نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس کی خبر ہوی تو آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا : کہ اے بنو سلمہ ! اب جن گھروں میں ہو وہیں رہو (تم جووہاں سے چل کر مسجد آتے ہو ) تمہارا ہر ہر نقشِ قدم لکھا جارہا ہے اور تمہارا ہر نشانِ قدم (اللہ تعالیٰ کے پاس ) محفوظ ہورہا ہے۔ کچھ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہی آیت اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتیٰ وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم نازل ہوی تھی۔


اس طرح سے وَنَکتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم کے مفہوم سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں


٭انسان خود کو شترِ بے مہار نہ سمجھے اورزمین پر من مانی کرتانہ پھرے ۔ اسے اس کی آزادی کے حدود بتائے گئے اور خبردارکیا گیا کہ اس کی حیثیت زمین کے اوپراس قیدی کی سی ہے جس کے چاروں طرف کڑی نگرانی لگائی گئی ہے ۔ نہ سونے والی نگاہیں ہمیشہ اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اس پر ایسے چاق و چوبند پہرہ بٹھایا گیا ہے جو اس کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہے ہیں اور جو اس کی سانسوں کی بھی گنتی رکھتے ہیں۔قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ سورہ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے کہا : ” کیا وہ سجھتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور اکی سر گوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سک رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس رہ کر لکھ رہے ہیں ‘‘(الزخرف: 80)


٭”انسان کی زبان سے نکلنے والی ہر بات نوٹ کی جارہی ہے ”(حرکات و سکنات اوراشارات و کنایات کوبھی تاڑنے والے ) فی الفور گرفت میں لانے والے دونوں ( فرشتے)نوٹ کر رہے ہیں ، ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب۔ زبان سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے“


٭اس کے سارے افعال کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے ۔اور انہیں محفوظ کیا جارہا ہے اس میںکوئی شک نہیں کہ تم پر نگران مقرر ہیں ، کچھ معزز کاتبین ، وہ ہر اس چیز کوجانتے ہیں جو تم کرتے ہو ۔ (الانفطار : 10۔12) انسان کے ان ریکارڈ شدہ اعمال کو بروز قیامت اس کے سامنے پیش کیا جائےگا ۔ آیت کا پہلا حصہ اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتی سے اس کی طرف اشارہ ملتاہے۔ قرآن مجیدنے مختلف مقاماتمیں متعدد پیرایوں سے اس کی وضاحت کی ہے۔مثلا ً سورة بنی اسرائیل میں بتا یا گیا : ” اور ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اسکے گلے کے ساتھ باندھ دیا ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا ۔(پھر ہم اس سے کہیں گے ) پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔“(بنی اسرائیل : 31)


سورة الکہف میں اس کتاب کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے” اوردفتر(عمل)سامنے رکھدیا جائےگا ۔اس وقت تم دیکھوگے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ”ہائے ہماری شامت، یہ کیسی کتاب ہے!؟ ہماری چھوٹی بڑی حرکت میں سے کسی ایک کو بھی تو اس نے نہیں چھوڑی ہے سب کا سب جمع کردیا ہے! “۔ جو کچھ بھی انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہیں کرےگا“ (الکہف : ۹۴)


وَکُلَّ شَیی اَحصَینٰہُ فِی´ اِمَامٍ مُّبِینٍ


’ امام مبین‘ سے اکثر مفسّرین نے ”اللوح المحفوظ“ مراد لیا ہے یعنی وہ ’ام الکتاب’ جس میں کائنات اور اسکی ہر شی ¿ کی تفصیل موجود ہے۔قرطبی نے ’الامام’ کی تشریح کرتے ہوے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہی حجت اور دلیل بھی۔ سید قطب شہید رحمه الله لکھتے ہیں کہ ” اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور قدیم علم ہے جو کائنات کی ہر ہر چیز پر محیط ہے ” اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ساری کائنات، اس کا ذرہ ذرہ اور اس میں ظہور پذیر ہونے والا ہر واقعہ لکھ کر محفوظ کردی گئی ہے۔


اعجاز الدین عمری

اہم مراجع و مصادر:
فسیر ابنِ کثیر از امام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرالدمشقی رحمه الله
تفسیر قرطبی (جامع لأحکام القرآن) از امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمه الله
تفسیرطبری(جامع ا لبیان فی تفسیر القرآن) از امام ابو جعفر محمدبن جریرالطبری رحمه الله
فتح القدیر از امام محمدعلی الشوکانی رحمه الله
فتح الباری از اشہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی رحمه الله
فی ظلال القرآن از شہید سید قطب رحمه الله
اضواءالبیان فی ایضاح القرآن از محمد الامین الشنقیطی رحمه الله
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمه الله
تدبّرِ قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی رحمه الله

Thursday, January 27, 2011

نماز فجر میں قرآن شریف پڑھنا

نماز فجر میں قرآن شریف پڑھنا اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ طور پڑھی
حدیث نمبر : 771
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا سيار بن سلامة، قال دخلت أنا وأبي، على أبي برزة الأسلمي فسألناه عن وقت الصلوات، فقال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر حين تزول الشمس، والعصر ويرجع الرجل إلى أقصى المدينة والشمس حية، ونسيت ما قال في المغرب، ولا يبالي بتأخير العشاء إلى ثلث الليل ولا يحب النوم قبلها، ولا الحديث بعدها، ويصلي الصبح فينصرف الرجل فيعرف جليسه، وكان يقرأ في الركعتين أو إحداهما ما بين الستين إلى المائة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے سیار ابن سلامہ نے بیان کیا ، انھوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ۔ ہم نے آپ سے نماز کے وقتوں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سورج ڈھلنے پر پڑھتے تھے ۔ عصر جب پڑھتے تو مدینہ کے انتہائی کنارہ تک ایک شخص چلا جاتا ۔ لیکن سورج اب بھی باقی رہتا ۔ مغرب کے متعلق جو کچھ آپ نے کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا اور عشاء کے لیے تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۔ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تو ہر شخص اپنے قریب بیٹھے ہوئے کو پہچان سکتا تھا ۔ آپ دونوں رکعات میں یا ایک میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے ۔

صحیح بخاری
صفۃ الصلوٰۃ

گناہوں سے کیسے بچیں ؟

اللہ تعالی نے انسانوںکو با اختیار مخلوق بنایا ہے ۔ اس اختیار کے بعد انسان نیکی اور گناہ دونوں راستوں پر چلنے لگتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے وَہَدَینَاہُ النَّجدَینِ ” ا ور ہم نے ( نیکی اور بدی کے) راستے اسے دکھا دیئے ۔ “ ( سورہ البلد: 10 )
 ایک دوسرے مقام پر اس مفہوم کو اس طرح بےان کیا گیا ہے: اِنَّا ہَدَینَاہُ السَّبِیلَ اِمَّا شَاکِراً واِمَّا کَفُوراً” ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا بنے۔ “ ( سورہ الدھر: 3)
 دونوں کے نتائج الگ الگ ہوں گے ‘ نیکی کرنے والا جنت کا مستحق ہوگا جبکہ گناہ کرنے والا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلے گا ۔ ہر ہوش مند اور عقلمند انسان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اٹھانا پڑےگا ۔(1) اللہ تعالی سن رہا ہے اور دیکھ رہاہے:ایک بندہ گناہ سے بآسانی بچ سکتا ہے اگر اس کے ذہن مےں یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ جو کچھ وہ بولتا ہے اور کہتاہے نیز جو بھی کوئی عمل کرتاہے اس کا رب اسے سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کےونکہ قرآن مجید مےں بڑے واضح الفاظ مےں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:الم تر ان الله يعلم ما في السماوات وما في الارض ما يكون من نجوى ثلاثه الا هو رابعهم ولا خمسه الا هو سادسهم ولا ادنى من ذلك ولا اكثر الا هو معهم اين ما كانوا ثم ينبئهم بما عملوا يوم القيامه ان الله بكل شيء عليم ( سورہ المجادلہ: ۷)” کیا تم کو خبر نہیں کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ جہاں کہیں بھی ہوں تو اللہ ان کے ساتھ ہوتاہے۔ “مولانا شمس پیر زادہ اپنی تفسیر ” دعوة القرآن“ میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہےں:” سرگوشی کرنے والے خواہ تین ہوں یا زیادہ یا اس سے کم اللہ اپنے علم ٬ اپنی سماعت و بصارت اور اپنی قدرت کے لحاظ سے وہاں موجود ہوتا ہے اس لئے پوشیدگی مےں کی ہوئی باتیں اس سے مخفی نہےں رہ سکتیں ۔ (دعوة القرآن: 3/۱۱۰۲ حاشیہ:۶۱)مولانا مودودی رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہيں:در اصل اس ارشاد سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورے کررہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی ہر طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ “ ( تفہیم القرآن ۵/۸۵۳)
ایک دوسرے مقام پر اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:﴾ يعلم خائنه الاعين وما تخفي الصدور ﴿ ( سورة المومن: 19)
” اللہ تعالی نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہےں۔
 “(2) فرشتے ریکارڈ تیار کر رہے ہیں :گناہوں سے بچنے کی ایک تدبیر ےہ ہو سکتی ہے کہ آدمی ےہ سوچتا رہے کہ فرشتے ہمارے اقوال واعمال کو لکھ رہے ہےں اور اسی ریکارڈ کی بنا پر کل قیامت کے دن جنت یا جہنم کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ام يحسبون انا لا نسمع سرهم ونجواهم بلى ورسلنا لديهم يكتبون ﴿ ( الزخرف: 80)
 ” کیا انہوں نے ےہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور انکی سرگوشیاں سنتے نہیںہیں؟ ہم سب کچھ سن رہے ہےںاور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہےں۔“ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا قول ہے:هذا كتابنا ينطق عليكم بالحق انا كنا نستنسخ ما كنتم تعملون (الجاثیہ: 29)
 ” ےہ ہمارا تیار کےا ہوا اعمال نامہ ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے ۔ جو کچھ تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جارہے تھے ۔ “وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (سورة ق 16-18)
” ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کوہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ ) دو کاتب اس کے دائیں اور اس کے بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں کوئی لفظ اس کی زباں سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو
۔ “(3) آدم علیہ السلام اور حوا کو گناہ کی وجہ سے جنت سے نکال دیا گیا:ہر فرد کو سوچتے رہنا چاہیے کہ گناہ کرنے کی وجہ سے ہمارے باپ آدم علیہ السلام اور ماں حوا کو جنت سے نکال دیا گیا تھا تو گناہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے جنت میں داخلہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (سورة البقرة 36-37)” آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دےکر ہمارے حق کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اتر جاﺅ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنی ہے ۔ اس وقت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کیا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے
۔“(4) گناہ سے قبل موت کی یاد:گناہ کرنے سے پہلے موت کو یاد کرنے کی صورت میں گناہ سے بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (185) (سورہ آل عمران 185)” ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیاجائے ۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے ۔“مولانا شمس پیرزادہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ” موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے ۔ انسان اپنی ساری سائنسی ترقیوں کے باوجود موت پر قابو نہ پاسکا اور انسانی جسم کی ساخت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ آئندہ انسان اس پر قابو پاسکے گالہذا موت جب اٹل حقیقت ہے تو یہ سوال کہ موت کے اس پار کیا ہے انسان کی اولین توجہ کا مستحق ہوجاتا ہے ۔ اتنے اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہ کرنا یا کوئی اندھا اور غیر حقیقت پسندانہ عقیدہ اپنے ذہن میں بٹھالینا وہ بنیادی غلطی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی ساری زندگی غلط ہوکر رہ جاتی ہے ۔ دوسری عظیم حقیقت جس پر سے قرآن پردہ اٹھاتا ہے وہ یہ ہے کہ موت انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ موت وہ پُل ہے جس کو پار کرکے آدمی عمل کی دنیا سے نتائج کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے“ ۔ (دعوة القرآن ،جلداول،ص 245)
(5)
اعضاءوجوارح ہمارے خلاف گواہی دیں گےقیامت کے دن ہمارے اعضاءہمارے خلاف گناہ کرنے کی وجہ سے گواہی دیں گے اس لیے یہ سوچتے رہنا چاہیے کہ جن اعضاءکے تعاون سے ہم گناہ کرکے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کر رہے ہیں وہی اعضاء(ہاتھ ،پاو ¿ں،زبان وغیرہ ) اللہ کے سامنے ہمارے خلاف شہادت دیں گے ۔ارشاد باری تعالی ہے : وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (19) حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (20) وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (21) ﴿ ( حٰم ٓالسجدہ )” اور اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لیے جائیں گے ، ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے ہیں ، وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ وہ جواب دیں گی : ہمیں اسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہرچیز کو گویا کردیا ہے ۔ اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو ۔“دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالی ہے : اليوم نختم على افواههم وتكلمنا ايديهم وتشهد ارجلهم بما كانوا يكسبون (سورہ یٰس ٓ:65)”آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ،ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اوران کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔
“(6)
موت اور قیامت کے دن گنہگار حسرت وندامت سے دوچار ہوں گےگناہ سے بچنے کی ایک اہم تدبیر یہ ہو سکتی ہے کہ ایسے افراد موت اور قیامت کو یاد کریں اور سوچیں کہ وہاں شرمندگی ہوگی ، جگ ہنسائی ہوگی ۔ ارشاد باری تعالی ہے :حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (سورة المؤمنون: 99:100)”یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ اے میرے رب اسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں واپس چھوڑ آیا ہو ں امید کہ اب میں نیک عمل کروں گا ۔ ہرگز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے اب ان سب کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔“قیامت کے دن بھی اسی طرح کی خواہش گنہگار لوگ کریں گے ، ارشاد باری تعالی ہے وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا﴿ (الفرقان27-29 ) ” اس دن (قیامت کے دن ) ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کہ کاش ! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا ! ہائے میری کم بختی ! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا اس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی ۔ شیطان انسان کے حق میں بڑا بے وفا نکلا ۔ “
(7)
گناہ لعنت کا سبب بنے گالعنت بے عزتی اور جگ ہنسائی ہے ، گناہ کے سبب انسان پر لعنت بھیجی جائے گی ۔ ارشاد باری تعالی ہےلُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( المائدہ78-79 )”بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داو ¿د اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیوںکہ وہ سرکش ہوگیے تھے ۔ اور زیادتیاں کرنے لگے تھے ۔“
اظہرالدین فلاحی

زلزلے آفات الٰہی ہیں

عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: “یکون فی آخر ہذہ الأمة خسف ومسخ وقذف قالت: قلت: یا رسول اللہ، أنھلک وفینا الصالحون؟ قال:نعم، اذا کثر الخبث ( أخرجہ الترمذی: 2185
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دئے جانے ، صورتوں کو مسخ کئے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہونگے پھر بھی ہم ہلاک کردئے جائیں گے ؟ آپ انے فرمایا : ہاں جب فسق و فجور عام ہوجائے گا تو ایسا ہوگا ۔تشریح : آج کئی سالوں سے دنیا کے گوشے گوشے میں زلزلے ، سیلاب اور طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ، آئے دن کسی نہ کسی جگہ سے زمین کے دھنس جانے ، فلک بوس عمارتوں کے زمین بوس ہوجانے بڑے بڑے شہروں کا سیلابوں اور طوفانوں کی زد میں آجانے کے واقعات سنائی دیتے ہیں ، ان آفات و بلا کی طبعی و فطری وجہ کوئی بھی ہو لیکن جس چیز سے انکار کی گنجائش نہیں ہے وہ یہ کہ سب کچھ انسانوں کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ، موجودہ دور میں انسانی زندگی کاکوئی گوشہ نہیں ہے جہاں خالق و مالک کی کھلی نافرمانی دیکھنے میں نہ آرہی ہے ، یہی وہ چیز ہے جس کی پیشین گوئی صادق و مصدوق نبی امین حضرت محمد مصطفی انے زیر بحث حدیث میں فرمائی ہے۔اس حدیث سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اس امت پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب لوگ زلزلوں ، صورت وسیرت کے مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھروں کے بارش جیسے عذاب میں مبتلا ہوں گے ، اور ایسا اللہ تعالی کی طرف سے بطور ظلم نہیں بلکہ ان کی بعض بد اعمالیوں کے پاداش میں ہوگا ، جیسے زنا اور امور زنا اس قدر عام ہوجائے کہ لوگوں کے دلوں سے اس کی قباحت جاتی رہے گی، گانے و باجے اس قدر عام ہوجائیں گے کہ ایک فتنہ کی شکل اختیار کرلیں گے ، شراب و منشیات کا دور دورہ اس قدر ہوجائے کہ دنیا کی سب سے بڑی تجارت بن جائے گی اور لوگ ایمان کے ارکان و مسلمات میں شک کرنے لگیں گے تو ایسے عذاب سے لوگ دو چار ہوں گے۔ایک مومن کے لیے باعث تعجب نہیں ہے کہ ایسے تباہ کن حالات و ظروف پیش آرہے ہیں بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ان امور کے پیش آنے کا جو حقیقی سبب ہے اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے اور اس کی حکمت الہی پر غور نہیں کیا جارہا ہے ، جو ان امور کے ظاہر ہونے میں پوشیدہ ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :وما نرسل بالآیات الا تخویفا “اور ہم تومحض ڈرانے کے لیے نشانیاں بھیجا کرتے ہیں ” الاسرائ: 59معلوم ہوا کہ ان آفات و بلا ءکا سبب خالق کائنات کی نافرمانی ، اس کی علت سے لوگوں کو متنبہ کرنا اور اپنے خالق و مالک کی طرف لوٹنے کی دعوت دینا ہے
۔فوائد :(1) زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانی ہے۔(2) گناہ عذاب الہی کا سبب ہیں۔(3) دنیا میں جو مصیبت و بلا بھی آتی ہے وہ لوگوں کے اپنے اعمال کی پاداش ہے۔(4) زلزلوں کی آمد ، سیلاب و طوفان کا اٹھنا لوگوں کو متنبہ کرنے اور اپنے مالک کے حضور توبہ کی دعوت دینے کے لیے ہے
مولانا مقصودالحسن فیضی

سورة یٰسٓ فہم و تدبر کے آئینہ میں

(اَاَتَّخِذُ مِن دُونِہِ اٰلِھَةً اِن یُّرِدنِ الرَّحمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغنِ عَنِّی شَفَاعَتُھُم شَیئًا وَلَا یُنقِذُون(23)اِنِّی اِذَا لَفِی ضَلَالٍ مُبِین(24)اِنِّی اٰمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعُونَ (25) قِیل ادخُلِ الجَنَّةَ قَالَ یٰلَیتَ قَومِی یَعلَمُونَ(26)بِمَاغَفَرَ لِی رَبِّیوَجَعَلَنِیمِنَ المُکرَمِینَ (27)

”اُسے چھوڑ کرکیا میں ایسے معبودوں کاسہارا لوں کہ اگر (میرے) نہایت مہربان(خدا) نے مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو جن کی سفارش میرا کچھ کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھکو بچا ہی سکیں گے اگر میں ایسا کروں تو

صریح گمراہی میں مبتلا ہوجاوں گا۔ میں تو ایمان لایا ہوں تمہارے رب پر ، اس لیے میری سن لو اُس سے کہا گیا ”داخل ہوجا جنت میں “۔ اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے “

﴾اَاَتَّخِذُ مِن دُونِہِ اٰلِھَةً اِن یُّرِدنَ الرَّحمٰنِ بِضُرٍّ لَّا تُغنِ عَنِّی شَفَاعَتُھُم شَیئًا وَلَا یُنقِذُونَ”﴿”اُسے چھوڑ کر کیا میں ایسے معبودوں کا سہارا لوں کہ اگر (میرے) نہایت مہربان (خدا ) نے مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو جن کی سفارش میرا کچھ کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھکو بچا ہی سکیں گے“ ۔

اس استفہام انکاری کے ذریعہ اس مرد مجاہد نے قوم کو سمجھانا چاہا کہ ”اس رحمن و مہربان خدا کے دربار کو چھوڑ کر کسی بے بس کا در وازہ کھٹکھٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہاں اللہ تعالی کی صفت رحمن استعمال کیا گیا کہ میں نے جس کی بندگی میں زندگی گذارنے کا فیصلہ کیا ہے وہ نہایت مہربان ہے اور اگر اس کی انتہائی مہر بانی کے باوجود مجھے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے دو ہی مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ میری کمینگی اس حد کو پار کرچکی ہے کہ ایک نہایت مہربان خدا کا دامن بھی میرے لیے تنگ پڑگیاہے اور میں اس کی سزاکا مستحق ہو چکا ہوں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرا معبود رحمن مجھے نقصان میں ڈال کر میرا امتحان لینا چاہتا ہے ۔ نقصان کی ان دونوں صورتوں میں اگر میں اُ س کے سوا کسی اور کا سہارا تلاش کروں گا تو یہ میری حماقت نہیں تو اور کیا ہوگی؟ اس لیے کہ اللہ تعا لی کے سوا جن کو بھی معبودبنایا جائے گاوہ سرے سے بے اختیا ر ہیں ۔ وہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ ان کی سفارشات اللہ تعالی کے پاس کوئی وقعت رکھتی ہیں ۔ قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر ان کی بے بسی اور بے بضاعتی پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔سورة الزمر میں کہا گیا ﴾قُل اَفَرَایتُم مَاتَد عُو نَ مِن دُو نِ اللّٰہِ اِن اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَل ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہِ اَو اَرَادَنِی بِرَحمَةٍ ھَل ھُنَّ مُم سِکٰتُ رَحمَتِہ قُل حَس بِیَ اللّٰہُ عَلَیہِ یَتَوَکَّلُ ال مُتَوَکِّلُو نَ ﴿ (38) ﴿” ان سے کہو ، جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں ‘ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو‘ مجھے اس کے پہنچائے ہوے نقصان سے بچا لیں گی۔یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کوروک سکیں گی۔ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔

سورة بنی اسرائیل میں کہا گیا﴾قُلِ اد عُو الَّذِین زَعَمتُم مِن دُونِہِ فَلَایَملِکُو نَ کَشفَ الضُّرِّعَنکُم وَلَا تَحوِیلًا (56) ﴿” ان سے کہو ، پکار دیکھو ان معبو دوں کو جن کو تم خدا کے سوا (کار ساز) سمجھتے ہو ، وہ کسی تکلیف کو تم سے ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں ۔“

اِنِّی اِذَا لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ” اگر میں ایسا کروں گا تو صریح گمراہی میں مبتلا ہوجاوں گا“۔

عربی زبان میں ”ضلال “ یا ”ضلالة“ کے معنی ہیں منزل مقصود تک پہنچانے والا راستہ کھو دینا،راہ گم کرنا اور بھٹک جانا

اعتقاد و عمل کی ہر بے راہ روی کو اسلام ضلالت سے تعبیر کرتا ہے اس سے بڑھ کر گمراہی اور بے راہ روی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان خود اپنے خالق اور مالک کو پہچان کر اس سے عبدیت کا رشتہ جوڑنے کی بجائے اُنہیں معبود بنالے جو اُس سے بڑھ کر مجبور و بے بس ہیں ،اور جواس کے یا کسی کے حق میں نہ نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کا ہی اختیا رکھتے ہیں ۔

بعض مفسرین نے یہاں پر ” ضلال “ سے خسران بھی مراد لیا ہے جس سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لینا تو بڑے خسارہ کا سودا ہے “

اِنِّی اٰمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعُو ن ” میں تو ایمان لایا ہوں تمہارے رب پر ، اس لیے میری سن لو“

اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :

ایک یہ کہ اس مرد مومن نے یہ جانتے ہوے بھی کہ قوم اس وقت حق پرستی کے حق میں کسی بھی موقف کے خلاف طیش و غضب میں ہے ، اُن دشمن دین و جان کو خطاب کرتے ہوے ڈنکے کی چوٹ پریہ اعلان کیا کہ جس خدا پر میں ایمان لایا ہوں وہ صرف میرا رب نہیں ہے بلکہ وہ تمہارا رب بھی ہے ، اس لیے میری بات مان لو اور اپنے آپ کو اپنے رب کے سپرد کردو

مفسرین کا ایک طبقہ اس رائے کا حامل بھی ہے کہ یہاں مرد مومن کا خطاب منکرین کی بجائے خود ان مرسلین سے ہے ۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” اے اللہ کے برگزیدہ بندو! جس رب نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے اور جس کی طر ف تم دعوت دے رہے ہو میں اس پر ایمان لاچکا، اس رب کے حضور اب تم ہی میرے ایمان کے گواہ رہنا “

اس مفہوم کی رو سے فَاس مَعُو ن کے معنی فَاشھَدُو الِی کے ہوںگے ۔

ہر زمانے میں انبیاءعلیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے ہوے اُن کے دل و دماغ سے یہی اپیل کرانے کی کوشش کی کہ جس خداکی بندگی کی ہم تمہیں دعوت دے رہے ہیں وہ کوئی نیا خدا نہیں ہے اور نہ یہ خدائی کا کوئی نیا تصورہے کہ تم اس کے نام سے بدک جاو بلکہ وہ تو تمہارا پنا رب ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہارا پالنہار بھی ہے۔یہ تمہارے اسی رب کا پیغام ہے جس کی قدرت کی نشانیاں تم اپنے ارد گرد ہر پل اور ہر سو دیکھتے ہو اور محسوس کرتے ہو !جس کی بیش بہا نعمتوں سے زندگی کی ہر گھڑی لطف اندوز ہوتے ہو اور اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہو! سورة یونس میں اس بات کو اس طرح سمجھایا گیا ہے : ﴾قُل مَن یَر زُقُکُم مِّنَ السّمَاء وَ الاَر ضِ اَمَّن یَّملِکُ السَّمعَ وَ الاَب صَارَ وَمَن یُّخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ یُخرِجُ المَیِّتَ مِنَُ الحَیِّ وَمَن یُّدَبِّرُ الاَمرَ فَسَیَقُولُونَ اللّٰہُ فَقُل اَفَلَا تَتَّقُو نَ (31) فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الحَقُّ فَمَا ذَا بَعد الحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ فَاَنَّی تُصرَفُونَ﴿ (32)

”ان سے پوچھو ، کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ‘ پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پر ہیز نہیں کرتے؟ (جب تم یہ مانتے ہو کہ یہ سب اللہ نے کیا ہے ) تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جارہے ہو؟“

﴾قِیل ادخُلِ الجَنَّةَ قَالَ یٰلَیتَ قَومِی یَعلَمُون بِمَاغَفَرَ لِیرَبِّیوَجَعَلَنِیمِنَ المُکرَمِینَ﴿ ”اُس سے کہا گیا ”داخل ہوجا جنت میں “۔ اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے “

دراصل کسی قوم میں انقلاب کی پہلی کرن اسی وقت نمودار ہوتی ہے جب اس قوم کا کوئی ایک فردبھی،موت کو نگاہوںکے سامنے پاکر بھی اعلان حق کی ہمت کر بیٹھتا ہے ۔ اور کسی قوم کی بدبختی کا یہ آخری مرحلہ ہوتا ہے کہ حق پرستی کے جرم میں وہ کسی پر دست درازی کرے اور اس کو جان سے مار ڈالے ۔

اس مرد مومن کی بے باکی و بے خوفی کو سربراہان باطل برداشت نہ کر سکے اور جیسے ہی اس نے کلمہ حق کا اعلان کیا اوباشانِ قوم اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اس کی روح پرواز نہ کر گئی ۔ بلکہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ اُس کی لاش سے کھلواڑ کرتے رہے ۔ (تفسیر البغوی)

اِدھر ایک شخص کی زندگی کے ساتھ کھیلتے ہوے اور اس کی لاش کی بے حرمتی کرتے ہوے اہل کفر کے دلوں میں اس کو توہین کرنے کے جذبات رقصاں تھے تو اُدھر عالمِ بالا کے باشندے اُس کی روح کے استقبال میں نظریں بچھائے کھڑے تھے اور جیسے ہی اُس کی جان جسم کے قفس سے آزاد ہوی اللہ تعا لی کی جانب سے اس کی آو بھگت اس طرح کی گئی کہ اُ س سے کہا گیا ” اے میرے بندے (جس آزمائش کے مرحلہ سے تو گزر کے آیا ہے اس کے بدلے میں ) تو (میری ) جنت میں داخل ہوجا“ ۔

’جنت ‘ آخرت کی زندگی میں ہر اُ س انسان کے لیے خدائی عطیہ ہے جس نے زمین پر خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گذاری ہے ، جو اپنی خواہشوں اور آرزووں کے خلاف اس لیے زندگی بھر جنگ لڑتا رہا کہ خدا اُس سے راضی ہوجائے اور اس لیے مشکلات ومصائب کاسامنا کیا کہ خدا اس سے خوش ہوجائے ۔ سورة النازعات میں اللہ تعالی نے فرمایا : ﴾وَاَمّا مَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَنَھَی النَّفسَ عَنِ الھَوی(40) فَاِنَّ الجَنَّةَ ھِیَ الماوَی(41) ﴿”اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھاتھا ، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی“

سورة ق ٓ میں کہا گیا ﴾ واُزلِفَةُ الجَنَّةُ لِلمُتَّقِینَ غَیرَبَعِید (31)ھٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِکُلِّ اَوَّابِ حَفِیظِِ (32) مَنخَشِیَ الرَّحمٰنَ بِالغَیبِ وَجَائَ بِقَلبٍ مُّنِیب ٍ(33)اُدخُلُوھَا بِسَلَامٍ ذٰلِکَ یَومُ الخُلُود(34)﴿”اور (اس دن ) جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی ، کچھ بھی دور نہ ہوگی۔(پھر اعلان کیا جائے گا کہ)

”یہ وہی مقام ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا (اور زندگی کے جھمیلوں کے درمیان بھی اپنے ایمان کی )بڑی نگہداشت کرنے والاتھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرا کرتا تھا، اور جو بار بار (اپنے رب کی جانب) پلٹنے والا دل لےکر آیا ہے “

یہاں پر آنے والے ہر مومن کا استقبال اسی شان سے کیا جائے گا جس طرح اس مومن مرد کا کیا گیا ۔سورة الزمر میں بیان کیا گیا ہے”اور جو لوگ اپنے رب کی نا فرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لیجایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ وہ جب وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے، تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ ” سلام ہو تم پر ، بہت اچھے رہے ، داخل ہوجاو اس میں ہمیشہ کے لیے “ ( 73)

اسی بات کو سورة الفجر میں اس طرح کہا گیا : ﴾ یَآاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّةُ( 27) ارجِعِیاِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرضِیَّة( 28) ً فَادخُلِی فِی عِِبَادِی ( 29) وَادخُلِی جَنَّتِی ( 30) ﴿ ”اے نفس مطمئن ، چل اپنے رب کی طرف اِس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے ) خوش اور (اپنے رب کے نزدیک ) پسندیدہ ہے ۔ شامل ہوجا میرے(نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں “ ۔

جنت کو پردہ راز میں رکھا گیا ہے ۔ قرآن مجید کہتا ہے﴾ فَلَا تَعلَمُ نَفس مَّا اُخفِیَ لَھُم مِّن قُرَّةِ اَعیُنِ جَزَاء بِمَا کَانُوا یَعمَلُو نَ ﴿ (سورة السجدة : 17)” پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاءمیں ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے “

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے(اَعدَدتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لَا عَین رَات وَلَا اُذُن سَمِعَت وَلَا خَطَرعَلَی قَلبِ بَشَرٍٍ)

” میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ تیا کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سناہے اور نہ کسی فرد بشر کے دل میں اس کا خیال ہی گذرا ہے “ (بخاری مسلم)

یہی وجہ ہے جب یہ جنت حقیقت بن کر اُس مرد مومن کی نگاہوں میں آئی تو اس کی حیرت و فرحت نا قابل بیا ن تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کے اپنے ایمان و عمل کے بدلے اس کو اس اعزاز و اکرام سے نوازا جائے گا اور رب کریم مغفرت کا ایسا سامان اس کے لیے فراہم کرے گا ۔ مگر ان نعمتوں کو پانے کے بعد بھی اس کے دل میں کوئی غم تھا تو وہ اس کی اس نادان قوم کا تھا جس نے اس کی نصیحت کو سننے سے انکار کیا تھا ،ان ناعاقبت اندیشوں کی فکر ہی اُسے جنت میں بھی دامن گیر رہی ، اک حسرت تھی من میں کہ کاش میری قوم بھی جانتی کہ یہاں اللہ تعالی نے اپنے ماننے والوں کے لیے کیسی کیسی نعمتیں تیار رکھی ہیں ، کاش میرے لوگ جان لیتے کہ یہاں اس کی بخششیں کس کس رنگ میں ہویدا ہیں ۔اس کی اسی تمنا اور حسرت کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیا ن کیا : ﴾ قَالَ يا ليت قَومِی یَعلَمُونَ بِمَاغَفَرَ لِی رَبِّی وَجَعَلَنِی مِنَ المُکرَمِینَ﴿ ” اس نے کہا کاش میری قوم کو پتا لگتا کہ کس چیز کی بدولت میرے رب نے میری مغفرت فرمادی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا ہے“

”جنت“ مقام عزت ہے ۔”جنت“ مقام نوازش ہے ۔ ”جنت“ مقام تکریم ہے ۔جنہوں نے اللہ تعالی کی خاطر اس دنیا میں عوامی ذلت کو برداشت کیا ، جنہوں نے یہاں پر اللہ تعالی کی اطاعت کو قبول کیا جنت میں ان کے احترام و اکرام میں کوئی کمی نہ ہوگی ، چاق چوبند خدائی ہرکارے جنت کے طول عرض میں پھیلے ہوے ہوںگے جو ہر قدم اور ہر پل ان کی خدمت و تکریم کے لیے تیار رہیں گے ۔ سورة المعارج میں ان جنتیوں کی تعریف کرتے ہوے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :﴾ اُ و لٰئِکَ فِی جَنَّاتٍ مُّکرَمُونَ﴿ ” یہ لوگ عزت کے ساتھ باغوں میں رہیں گے“
اعجاز الدین عمری
اہم مراجع و مصادر:
تفسیر ابنِ کثیر از امام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرالدمشقی
تفسیر قرطبی (جامع لاحکام القرآن) از امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی
 تفسیرطبری(جامع ا لبیان فی تفسیر القرآن) ازامام ابو جعفر محمدبن جریرالطبری
 فتح القدیر از امام محمدعلی الشوکانی
فتح الباری از اشہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی
فی ظلال القرآن از شہید سید قطب
اضواءالبیان فی ایضاح القرآن از محمد الامین الشنقیطی
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی
تدبّرِ قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی


Sunday, January 23, 2011

اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم کے پانچ فوائد

اعوذباللہ پڑھنے سے بھی پانچ فوائد حاصل ہوتے ہیں اول دین پر استقامت، دوئم شیطان کے شر اور فساد سے بچاؤ، سوئم اللہ عزوجل کی پناہ کا مضبوط قلعہ اور قرب کے مقام میں داخلہ، چہارم صدیقین، شہداء، صالحین اور انبیاء کے ساتھ مقام امن تک رسائی، پنجم مالک زمین و آسمان کی امداد کا حصول۔ ( غنیۃ الطالبین )
بعض کتابوں میں آیا ہے کہ جب شیطان لعین نے اللہ عزوجل سے کہا کہ میں تیرے بندوں کے آگے، پیچھے اور دائیں بائیں سے آ کر ان کو بہکاؤں گا تو اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ان کو میں حکم دوں گا کہ وہ تیرے اغوا سے بچنے کیلئے میری پناہ میں آنے کی درخواست کریں جب وہ مجھ سے درخواست کریں گے تو میں اپنی ہدایت کے ذریعے دائیں جانب سے اور اپنی عنایت کے ذریعے بائیں جانب سے اپنی نگہداشت کے ذریعے ان کی پشت سے اور اپنی اعانت کے ذریعے ان کے سامنے سے ان کی حفاظت کروں گا۔ اے ملعون تیرا بہکانا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
بعض احادیث میں آیا ہے کہ جو بندہ ایک مرتبہ اللہ کی پناہ مانگتا ہے تو اللہ تعالٰی دن بھر اس کی حفاظت فرماتا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ کی پناہ طلب کرکے گناہوں کے دروازوں کو مقفل کر دو اور بسم اللہ پڑھ کر اطاعت و بندگی کے دروازوں کو کھول دو۔
روایت میں ہے کہ مومن کو گمراہ کرنے کیلئے ابلیس روزانہ 360 لشکر بھیجتا ہے جب مومن اللہ عزوجل کی پناہ مانگتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی طرف تین سو ساٹھ مرتبہ نظر فرماتا ہے اور ہر مرتبہ نظر فرمانے سے شیطان کا ایک لشکر تباہ ہو جاتا ہے۔
بہرحال جس چیز سے شیطان ڈرتا اور بھاگتا ہے ( وہ اللہ کی پناہ ) طلب کرنا ہے یعنی اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم کا کثرت کے ساتھ ورد کرنا۔
بسم اللہ شریف کا بھی ورد کرنا چاہئے کہ اس سے شیطان چھوٹا بنتا ہے یہاں تک کہ وہ چیونٹی کے برابر بن جاتا ہے۔“ فیضان سنت “ میں ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے سے شیطان اس طرح پگھلتا ہے جیسے سیسہ پگھلتا ہے۔

Saturday, January 15, 2011

وہ عمل جس سے انسان کے دونوں فرشتے حرکت میں آ جاتے ہیں


ماں*کی دعا

حضرت موسٰٰی علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالٰی سے پوچھا کہ جنت میں میرے ساتھ کون ھو گا ارشاد ھوا فلاں*قصاب ھو گا

آپ کچھ حیران ھوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے وھاں*دیکھا تو ایک قصاب اپنی دکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ھو گیا حضرت موسٰٰی علیہ السلام نے اس قصائ کے گھر کے بارے میں مزید کچھ جاننے لے لئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاھی

گھر پہنچ کر قصائ نے گوشت پکایا پھر روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ھوئ تھی قصاب نے بمشکل اسے سہارا دے کر اٹھایا اور ایک ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رھا جب اس نے کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا بڑھیا نے قصاب کے کان میں*کچھ کہا جو سن کر قصائ مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر واپس آ گیا

حضرت موسٰٰی علیہ السلام جو یہ سب کچھ دیکھ رھے تھے آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ھے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرا دیا

قصاب بولا اے اجنبی یہ عورت میری ماں ھے گھر پر آنے کے بعد سب سے پہلے اس کے کام کرتا ھوں یہ روز خوش ھو کر مجھے دعا دیتی ھے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسٰٰی علیہ السلام کے ساتھ رکھے جس پر میں مسکرا دیتا ھوں کہ بھلا میں کہاں اور موسٰی کلیم اللہ کہاں

فضائل نماذ

لا إلہ إلا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی کے بعد جو سب سے اہم فریضہ ایک مسلمان پر عائد ہوتا ہے وہ پانچ وقت کی نمازیں ہیں ,وہ نماز کہ جو کفروشرک اور مو من بندہ کے درمیان وجہ امتیاز ھے,اسلام اورکفرکے درمیان
حد فاصل ہے ,جس کے بارے میں قیامت کے دن سب سے پہلے باز پرس ہوگی ,جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم:کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات کی وصیت ہے ,مزید برآں یہ اس کی پابندی اور نگہداشت کرنے والوں (نمازیوں) کے لئے اپنے دامن میں بہت سی فضیلتیں ,خوشخبریاں اوربشارتیں رکھتی ہے ,جو ایک مسلمان کو دعوت عمل دے رہی ہیں –

لہذا نماز کے فضائل کے متعلق کچہ عظیم بشارتیں –قرآن اور صحیح احادیث کی زبانی –آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں ,ان شاءاللہ یہ آپ کے اندر نماز کی پابندی کرنے کا شوق وجذبہ پیدا کریں گی .

1* نماز تمام اعمال میں افضل ترین ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟آپ نے فرمایا ((الصلاۃ لوقتھا )) "نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا "(بخاری ومسلم)

2* نمازبندہ اور اس کے رب کے ما بین رابطہ اورتعلق ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا)) إذا صلی أحدکم یناجی ربّہ)) "جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کررہاہوتا ہے"(بخاری)

3* نما ز دین کا ستون ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا((رأس الأمر الإسلام ,وعمودہ الصلاۃ وذِروۃ سنامہ الجہاد ))"تمام امور کا اصل اسلام ہے ,اور اس کا ستون نماز ہے ,اور اس کی بلندی جہاد ہے "(ترمذی )

4* نماز نور ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((الصلوۃ نور))"نماز نور ہے"(مسلم )

5* نماز نفاق سے براء ت ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم: نےارشاد فرمایا ((ليس صلاة أثقل على المنافقين من صلاة الفجر والعشاء ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا))"منافقين پر فجر اور عشاء کی نمازسے زیادہ گراں کوئی اور نماز نہیں ,اور اگر انھین معلوم ہوجائے کہ ان دونوں نمازوں کے اندر کیا (فضیلت )ہے تو وہ ان دونوں نمازوں کے لئے ضرور آئیں اگر چہ انھین گھٹنوں (یا چوتڑوں) کے بل گھسٹ کرہی کیوں نہ آنا پڑے –(متفق علیہ )

6* نماز آگ سے امان اور بچاؤ ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
((لن یلج النار أحد صلی قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا:يعني الفجر والعصر))"وه شخص نار (جهنم) ميں ہرگز نہیں داخل ہوگا جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز پڑھتا رہا –یعنی فجر اور عصر کی نماز" (مسلم)

7 * نماز بے حیائی اور منکر (ناشائستہ ) باتوں سے روکتی ہے :

فرمان الہی ہے : ﴿ {اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ } "جو كتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اورنماز قائم کریں ,یقیناً نماز بے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے –(سورۃ العنکبوت :45)

8* نماز اہم كاموں میں مددگار ہے :

فرمان باري تعالي ہے : {{وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ } " تم لوگ صبرا ور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرو –(سورۃ البقرۃ 45)

9* نماز باجماعت ,تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ الفذِّ بسبع وعشرین درجۃ))
نماز باجماعت ,تنہا پڑھی جانے والی نماز سے ستائیس درجہ افضل ہے –(متفق علیہ )

10* نمازی کیلئے فرشتے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے ہیں :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((الملائکۃ تصلی على أحدکم مادام فی مصلاہ الذی صلی فیہ مالم یحدث ,تقول : اللهم ارحمه))"جب تم ميں سے کوئی شخص اپنی نمازگاہ میں ہوتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے ,فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ حدث نہ کرے (یعنی اس کا وضوٹوٹ نہ جائے ) ,وہ کہتے ہیں :اے اللہ! تو اسے بخش دے ,اے اللہ !تو اس پررحم فرما"(متفق علیہ)

11* گناہوں کی مغفرت (معافی ) کی بشارت :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا )) من توضأ للصلاۃ ,فأسبغ الوضوء ,ثم مشی إلی الصلاۃ المکتوبۃ فصلاّہا مع الناس أو مع الجماعۃ أو فی المسجد غفراللہ لہ ذنوبہ))" جسنے نماز کیلئے وضو کیا اور کامل وضوکیا ,پھر فرض نماز کے لئے چلا اور لوگوں کے ساتہ باجماعت کے ساتہ یا مسجد میں نماز پڑھی ,تو اللہ تعالى اس کے گناہوں کو بخش دے گا –(مسلم )

12* جسم گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (( أرایتم لو أن نہرا ً بباب أحدکم یغتسل منہ کل یوم خمس مرّات ,ہل یبقی من درنہ شیی ء؟))قالوا:لا یبقی من درنہ شیئ,قال )فذالک مثل الصلوات الخمس یمحوا اللہ بہن الخطایا ))
"تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازہ پر ایک نہر ہو جس میں وہ ہرروز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو, کیااس کے جسم میں کچہ میل کچیل باقی رہے گا ؟صحابہ نے جواب دیا اس کا کچہ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا ,آپ نے فرمایا :بالكل يہی مثال پنج وقتہ نمازوں کی ہے کہ ان کےذریعہ اللہ تعالى گناہوں کو مٹا دیتا ہے "(متفق علیہ)

13* جنت میں ضیافت( مہمان داری )تیار کرنے کی بشارت:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((من غدا إلي المسجد أو راح ,أعد الله له في الجنة نُزُلا,كلما غدا أوراح ))"جوشخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالى اس کے لئے جنت میں ضیافت تیار کرتا ہے جب بھی وہ صبح یا شام کے وقت جاتا ہے "(متفق علیہ )

14* مسجد كي طرف جانے میں ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((من تطهر في بيته ,ثم مضى ‘إلي بيت من بيوت الله ‘ليقضي فريضة من فرائض الله ‘كانت خطواته إحداها تحط خطيئة والأخرى ترفع درجة ))" جس نےاپنے گھر میں طہارت حاصل کی ,پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کا رخ کیا تاکہ اللہ کے فرائض میں سے کسی فرض نماز کی ادائیگی کرے ,تو اسکا ایک قدم ایک گناہ کو مٹاتا ہے اور دوسرا قدم ایک درجہ کو بلند کرتا ہے "(مسلم)

15* نماز کی طرف جلدی آنےوالوں کے لئے اجر عظیم کی بشارت :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لو يعلم الناس ما في النداءوالصف الأول ‘ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه ‘ولو يعلمون ما في التهجير لاستهموا إليه )"اگرلوگوں کو پتہ چل جائے کہ اذان کہنے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کا کیا اجروثواب اور فضیلت ہے ,پھروہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ پائیں تو وہ ضرور اس پر قرعہ اندازی کریں گے ,اور اگر انھیں پتہ چل جائے کہ نماز کی طرف جلدی آنے میں کیا اجروثواب ہےتو وہ اس کی طرف ضرور سبقت کریں گے "(متفق علیہ )

16* نماز کا انتظار کرنے والا برابر نماز کی حالت میں ہوتا ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لايزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه ‘لايمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة ))"تم ميں سے کوئی شخص مسلسل نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نمازاسے روکے رہتی ہے , اسے اپنے گھر واپس لوٹنے سے مانع صرف نماز ہوتی ہے "(متفق علیہ )

17* جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جائیں گے :

أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إذا قال أحدكم آمين وقالت الملائكة في السماء آمين فوافقت إحداهما الأخرى غفر له ما تقدم من ذنبه )) جب تم میں سے کوئی شخص آمین کہے, اور آسمان میں فرشتے بھی آمین کہیں, اور ایک کی آمین دوسرے کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے (دونوں آمین بیک وقت ہوں ) ,تو اسکے گزشتہ گناہ معاف کردئیےجائیں گے (متفق علیہ )

18* اللہ عزوجل کے حفظ وامان کی بشارت :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((من صلى الصبح فهو في ذمة الله, فانظر يابن آدم !لايطلبنك الله من ذمته بشيء))" جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ تعالى کے ذمہ داری وپناہ میں ہے ,لہذا اے ابن آدم !دیکھ کہیں اللہ تعالى تجھ سے اپنے ذمہ میں سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے "(مسلم )

19* قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( بشّر المشّائين في الظلم إلى المساجد بالنّورالتام يوم القيامة ))" تاریکی میں مسجدوں کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری دے دو "(ابوداود ,ترمذی)

20* باجماعت فجر اور عصر کی نماز پابندی کرنے والوں کو جنت کی بشارت :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((من صلى البردين دخل الجنّة ))" جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں (یعنی فجر اور عصر ) پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگا ) (متفق علیہ )

21* پل صراط پار کرکے جنت میں پہنچنے کی بشارت :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((المسجد بيت كل تقي,وتكفل الله لمن كان المسجد بيته بالرَّوح والرحمة ,والجواز على الصراط إلى رضوان الله إلى الجنة))"مسجد ہر متقی وپرہیزگار کا گھر ہے ,اور اس شخص کیلئے جس کا گھر مسجد ہو , اللہ تعالى نے راحت ورحمت اور پل صراط پار کرکے اللہ تعالى کی رضا مندی یعنی جنت میں پہنچنے کی ضمانت ہے "(طبرانی ,علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح قراردیا ہے )

22* نمازاس کی پابندی کرنے والے کیلئے قیامت کے دن نجات کا باعث ہوگا :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم: کا ارشاد ہے : ((من حافظ عليها كانت له نوراوبرهانا ونجاة يوم القيامة ,ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ,ولا برهان ولانجاة ,وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف ))"جس نے نما ز کی حفاظت اورنگہداشت کی اس کے لئے نماز قیامت کے دن نور,دلیل اورنجات کا باعث ہوگی ,اور جس نے اسکی پابندی نہیں کی اس کیلئے نہ کوئی نور ہوگا ,نہ دلیل ہوگی اورنہ ہی کوئی نجات کا ذریعہ ہوگا ,اور وہ قیامت کے دن قارون ,فرعون ,ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا "(مسند احمد ,دارمی )

23* نماز گناہوں کے لئے کفارہ ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم: نے ارشادفرمایا : ((الصلوات الخمس ,والجمعة إلي الجمعة ,ورمضان إلي رمضان مكفرات ما بينهن ’إذا اجتنبت الكبائز)) " پانچ وقت کی نمازیں ,ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک, اورایک رمضان دوسرے رمضان تک ان کے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کیلئے کفارہ ہے ,بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے" (مسلم )

24* نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم: کے ہمراہ جنت میں داخل ہونے کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے :

ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم: کے ساتہ رات گزارتا تھا,اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لاتا, اور آپ کی حاجت کو سر انجام دیا کرتا تھا تو آپ نے مجہ سے فرمایا :"مانگو" تو میں نے کہا ":میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ,آپ نے فرمایا :"کیا اس کے علاوہ اور کوئی مانگ ہے ؟"میں نے کہا :صرف وہی ,آپ صلی اللہ علیہ وسلم: نے فرمایا :"فأعني على نفسك بكثرة السجود ))
"كثرت سجود (يعني زياده سے زیادہ نفلى نمازوں ) کے ذریعہ اپنے نفس پر میری مدد کرو" (مسلم )

25* نماز کی وجہ سے اللہ تعالى دو نمازوں کے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کو معاف کردیتا ہے :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم: نے ارشاد فرمایا : ((لا يتوضأ رجل مسلم فيحسن الوضوء ,فيصلى صلاة إلا غفر الله له ما بينه وبين الصلاة التي تليها ))
" جو مسلمان آدمی وضو کرتا ہے اور خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے ,پھر کوئی نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالى اس کی نماز اور اس کے بعد والی نماز کے ما بین سرزد ہونے والے گناہوں کو بخش دیتا ہے "(مسلم )

26* اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم: نے ارشاد فرمایا ((ما من أمر یءٍ مسلم تحضرہ صلاۃ مکتوبۃ ,فیحسن وضوءہا وخشوعہا ,ورکوعہاإلا کانت کفارۃ لما قبلہا من الذنوب , مالم یأت کبیرۃ , وذالک الدھر کلہ )) "جوبھی مسلمان آدمی کسی فرض نماز کے وقت کو پاتا ہے ,پھر اس کے لئے خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے ,اس کے اندر خشوع وخضوع کا اہتمام کرتا اور اسکے رکوع کو مکمل کرتا ہے تو یہ نماز اس کے گزشتہ گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی , جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گنا ہ کا ارتکاب نہ کرے ,اوریہ زندگی بھر ہوتا رہتا ہے "(مسلم )

27* نماز کا انتظار کرنا اللہ کے راستہ میں رباط ہے :

آپ نے ارشاد فرمایا :ألا أدلكم على ما يمحوالله به الخطايا ويرفع به الدرجات ؟قالوا: بلى يارسول الله ,قال : (( إسباغ الوضوء على المكاره ,وكثرة الخطا إلى المساجد , وانتظار الصلاة بعد الصلاة , فذالكم الرباط ,فذالكم الرباط ))" کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے اوردرجات کو بلند کردیتا ہے ؟صحابہ نے کہا :اے اللہ کے رسول !کیوں نہیں ,آپ نے فرمایا :"((سردی یا بیماری میں ) کراہت وناپسندیدگی کے باوجود مکمل طور پر وضو کرنا ,مسجدوں کیطرف قدموں کی کثرت اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ,یہی رباط ہے ,یہی رباط ہے "(مسلم ) [رباط کا مطلب ہے : ( دشمنوں سے حفاظت کے لئے سرحد کی پھرہ داری کرنا ).

28* نماز كي طرف جانا محرم حاجي كے اجروثواب کےمانند ہے :

رسول صلی اللہ علیہ وسلم: نے ارشاد فرمایا: (( من خرج من بيته متطهرا إلى صلاة مكتوبة فأجره كأجر الحاج المحرم , ومن خرج إلي تسبيح الضحى لا ينصِبه إلا إياه فأجره كأجرالمعتمر,وصلاة على إثر صلاة لا لغو بينهما كتاب في عليين))
"جوشخص اپنے گھر سےبا وضو ہوکر کسی فرض نماز کے لئے نکلا تو اس کا اجر محرم حاجی کے اجروثواب کے مانند ہے ,اور جو شخص چاشت کی نماز کے لئے نکلا ,اسے صرف وہی نماز تھکاتی ہے تو اسکا اجر عمرہ کرنے والے کے اجرکے مانند ہے , اورایک نماز کے بعد دوسری نمازجس کے درمیان لغونہ ہو وہ علیین میں لکھا جاتا ہے " (ابوداود)

29* جوشخص نماز سے مسبوق ہوگیا اور وہ نمازیوں میں سے ہے تو اس کے لئے نماز باجماعت میں حاضر ہونے والوں کے مثل اجروثواب ہوگا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم: نے ارشاد فرمایا (( من توضأ فأحسن الوضوء ثم راح فوجد الناس قد صلوا أعطاہ اللہ – عزوجل – مثل أجر من صلاہا وحضرہا لا ینقص ذلک من أجرھم شیئا ))" جس شخص نے وضو کیا اورخوب اچھی طرح وضو کیا ,پھر نماز کیلئے گیا تو لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں ,تو اللہ تعالى اسے ان لوگوں کے مثل اجروثواب عطا فرمائے گا جنہوں نے وہ نماز جماعت کے ساتہ پڑھی ہے ,اور اس سے ان کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی –(صحیح ابوداود)

30* جب آدمی باوضو ہو کر نماز کیلئے نکلتا ہے تو وہ واپس لوٹنے تک مسلسل نماز کی حالت میں ہوتا ہے :

رسول صلی اللہ علیہ وسلم: نے ارشاد فرمایا ((إذا توضأ احدکم فی بیتہ ثم أتى المسجد کا ن فی صلاۃ حتى یرجع فلا یفعل: هكذا ) وشبك بين اصابعه –"جب تم ميں سے کوئی شخص اپنے گھر میں وضو کرے ,پھر مسجد میں آئے تو وہ واپس لوٹنے تک نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ,لہذا وہ ایسا نہ کرے –آپ نے اپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک ( ایک ہاتہ کی انگلیوں کو دورسرے ہاتہ کی انگلیوں میں داخل ) کیا (یعنی کوئی عبث اور لغو کا م نہ کرے ) .(صحیح ابن خزیمہ )

نمازکو بروقت پڑھنے کی فضیلت واہمیت

دن و رات یعنی چوبیس گھنٹوں میں اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ان میں سے ہرنماز کی فرضیت کا تعلق اپنے وقت کے ساتھ وابستہ وقائم ہے، چنانچہ وقت داخل ہونے پر ہی نماز فرض ہوتی ہے، اس سے پہلے نہیں اور وقت کے اندر ہی ادا ہوتی ہے اور وقت گزرنے پر نماز قضا ہوجاتی ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ جس طرح پانچ نمازوں کی اہمیت ہے اسی طرح ان کو اپنے وقت پرادا کرنے کی بھی اہمیت ہے اور نماز کو وقت بے وقت پڑھنا ٹھیک نہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے‘‘۔(سورہ نساء آیت ۱۰۳)
فائدہ:اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے اور نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا ضروری ہے اور اس کو قضا کردینا گناہ ہے۔
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’جب بندہ اول وقت میں نماز پڑھتا ہے توہ وہ نماز آسمان کی طرف چڑھتی ہے یہاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتی ہے اور نماز پڑھنے والے کیلئے قیامت کے دن استغفار کرتی رہتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تیری اس طرح سے حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی ہے اور جب بندہ بے وقت نماز پڑھتا ہے تو وہ نماز اوپر چڑھتی ہے لیکن اس کیلئے نور نہیں ہوتا، اس وجہ سے وہ آسمان تک جا کر ٹھہر جاتی ہیں، پھراس کو بوسیدہ (اور پرانے) کپڑے کی طرح لپیٹ کر بے وقت نماز پڑھنے والے کے چہرہ پر مار دیا جاتا ہے اور وہ نماز یہ بد دعادیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے بھی اسی طرح ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا ہے۔(کنزالعمال)
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ وقت پر پڑھی ہوئی نماز کے اندر قبولیت ونورانیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ عرش تک پہنچ جاتی ہے اور نمازی کیلئے تاقیامت حفاظت کی دعا کرتی رہتی ہے اور بغیر معقول عذر کے بے وقت پڑھی ہوئی نماز کے اندر مقبولیت ونورانیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ عرش تک نہیں پہنچ پاتی اور نمازی کی طرف برے طریقہ سے لوٹا دی جاتی ہے اور وہ نمازی کو بددعا دیتی ہے۔
بعض احادیث وروایات میں نماز کو ٹھیک ٹھیک اور صحیح طرح پڑھنے پر بھی اس طرح کی قبولیت کا اور غلط طریقہ پر پڑھنے پر اس طرح نماز کے مردود ہونے کا ذکر ملتا ہے، دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں کیونکہ نماز کو ٹھیک اور صحیح ادا کرنے میں نماز کو وقت پر پڑھنا بھی شامل ہے اور غلط طریقہ سے پڑھنے میں اس کو بے وقت پڑھنا بھی شامل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ان سے فرمایا کہ اے علی تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو، ایک تو نماز جب اس کا وقت آجائے، دوسرے جنازہ جب حاضر ہوجائے، تیسرے جوان لڑکی کا جب (نکاح کا)جوڑ مل جائے۔ (ترمذی)
اور مسند احمد ومستدرک حاکم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’بے شک رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے علی تین چیزوں میں دیر نہ کرو ایک تونماز میں جب اس کا وقت آجائے، دوسرے جنازہ میں جب حاضر ہو جائے، تیسرے جوان لڑکی (کے نکاح میں )جب اس کا جوڑ مل جائے۔(مسند احمد، مستدرک حاکم)
فائدہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز ان اعمال میں سے ہے جنہیں وقت آنے کے بعد مؤخر نہیں کرنا چاہئے، یعنی وقت پر ادا کرنا چاہئے۔ اس سے نماز کو وقت پر ادا کرنے کی اہمیت وتاکید معلوم ہوئی۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے درست ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے کہ جس نے فرض نماز پڑھی اور اس کو اس کے وقت پر ہی ادا کیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کیلئے عہد ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دیں اور جس نے نماز کو قائم نہیں کیا اور اس کو اس کے وقت پر نہیں پڑھا تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کیلئے کوئی عہد نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ چاہیں گے تو اسے عذاب دیں گے اور چاہیں گے تو اس پر رحم فرمائیں گے۔ (مسندالبزار)
حضرت ابوعمروشیبانی نبیﷺ کے بعض صحابہ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ: ’’رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ تو نبیﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ فضیلت والا عمل اپنے وقت پر نماز پڑھنا اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور جہاد کرنا ہے۔(مسند احمد)
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کو وقت پر پڑھنا افضل ترین اعمال میں سے ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بعض دوسری سندوں کے ساتھ بھی تھوڑے بہت الفاظ کے فرق کے ساتھ مروی ہے، چنانچہ ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سب سے افضل عمل اپنے وقت پر نماز پڑھنا اور اللہ عزوجل کے راستہ میں جہاد کرنا ہے۔(شعب الایمان)
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: سب سے افضل عمل نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا ہے۔ (مسند البزارک)
اور محمد بن نصرمروزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تعظیم قدر الصلاۃ‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا۔
اور ایک روایت ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ : ’’حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟تو نبیﷺ نے فرمایا کہ نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھنا۔
اور ان الفاظ میں بھی روایت کی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا۔
نیز ان الفاظ میں بھی ایک روایت نقل کی ہے کہ : ’’حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر ادا کرنا۔
فائدہ: ان تمام روایات سے مختلف الفاظ کے ساتھ نماز کو اپنے وقت پر پڑھنے کی فضیلت معلوم ہوئی کہ نماز جب اپنے وقت پرادا کی جاتی ہے تو یہ نیک اعمال میں افضل ترین عمل شمار ہوتا ہے۔
اس لئے نماز کو وقت پر ادا کرنے کا بھرپور اہتمام کرنا چاہئے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے تھے کہ نمازی کو چاہئے کہ نمازاس طرح پڑھا کرے کہ اس کا وقت فوت نہ ہو اور نماز کے وقت کا فوت ہو جانا گھر اور مال دولت سے زیادہ عظیم چیز ہے۔(موطاامام مالک)
فائدہ:مطلب یہ تھا کہ گھر اور مال کی اتنی اہمیت نہیں جتنی کہ نماز کو وقت پرپڑھنے کی ہے، لہٰذا گھر بار اور مال ودولت میں لگ کر نماز کو قضا کرنا درست نہیں۔

تقدیر کا بیان

وضاحت :تقدیر کا معنی مقدار مقرر کرنا ہے۔اصطلاح شریعت میں افعال مخلوق(مخلوق کے اچھے یا برے کاموں) کے بارے میں مالکِ ارض و سما نے جو کچھ لکھا ہے وہ تقدیر کہلاتاہے۔دوسرے الفاظ میں تقدیر اﷲرب العزت کا علمِ مستقبل ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ تقدیر کے بارے میں پائی جانے والی الجھنوں کا سبب اس کے صحیح مفہوم سے عدم واقفیت ہے معنی و مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس کی بابت کوئی اِشکال باقی نہیں رہتاہے ، یہ بات ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ انسان اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کسی چیز کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلیتا ہے اور اس کے انتہائی محدود علم کے باوجود بعض اوقات اس کی رائے اور اندازہ سو فیصد درست ثابت ہوجاتا ہے انسان کے برخلاف اﷲتعالیٰ کا علم اس قدر وسیع اور نہ ختم ہونے والا ہے کہ اس کے لئے ماضی،حال اور مستقبل غائب اور حاضر،دن اور رات،روشنی اور تاریکی جیسی اصطلاحات بالکل بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہیں اس کے سامنے ہر چیز کھلی کتاب کی طرح ہے اس وسیع اور لامحدود علم کی بدولت مخلوق کے بارے میں اس کی لکھی ہوئی تقدیر کبھی غلط نہیں ہوسکتی،اپنے اسی وسیع علم کی روشنی میں اﷲتعالیٰ نے انسان کے عمل کرنے سے پہلے ہی اس کے حساب(کھاتے) میں لکھ دیا ہے کہ یہ انسان اچھے یا برے اور کیا کیا کام کرے گا اور اس کی جزا یا سزا کیا ہوگی ۔ ہادی کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:-’’ایک شخص مسلسل نیک کام کرتا ہے یہاں تک کہ بالکل جنت کے قریب پہنچ جاتا ہے پھر اچانک وہی شخص تقدیر کے مطابق برے کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے اسی طرح ایک شخص برے کام کرتا ہے اور دوزخ کے بالکل قریب پہنچ جاتا ہے پھر وہ اچانک تقدیر کے مطابق اچھے عمل کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔‘‘( صحیح بخا ری کتا ب ا لقد ر)} اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ پہلے سے جانتے ہیں کہ کون کب اور کیا عمل کرے گا وہ اپنے وسیع علم کی بدولت یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ گنہگار انسان آخرکار توبہ کر لے گااور نیک عمل کرنے لگے گا اور اسی(اچھے عمل) پر اس کا خاتمہ ہوگا یا یہ نیکی کرنے والابا لآخر نیکی کا دامن چھوڑ کر گناہوں کی طرف راغب ہوجائے گااور اسی برائی کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوگا۔

تقدیر کے بارے میں یہ تاثر انتہائی گمراہ کن ہے کہ انسان تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے کچھ نہیں کرسکتا حالانکہ نیکی اور برائی کی راہ اختیار کرنا انسان کا اپنا فعل ہے (تفصیل کیلئے پڑھئے تفسیر:18:29-اور76:3) اﷲتعالیٰ کا کوئی جبر نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک استاد امتحان سے پہلے اپنے شاگردوں کے بارے میں اندازہ لگاتاہے کہ فلاں پاس ہوگا فلاں فیل ہوگا اور اگر اس کا اندازہ درست ثابت ہوجائے تو یہ ہرگز نہیں کہا جاسکے گا کہ یہ استاد کے اندازے کی و جہ سے پاس یا فیل ہوئے ہیں۔ پاس یا فیل ہونا ان کے اپنے عمل کی و جہ سے ہے جس طرح استاد کا اندازہ لگانا شاگردوں کو پاس یا فیل ہونے پر مجبور نہیں کرتا اسی طرح اﷲتعالیٰ کا مخلوق کے بارے میں اپنے علم مستقبل کی وجہ سے تقدیر لکھنا انسانوں کو کسی کام پر ہرگز مجبور نہیں کرتا ہے۔

بعض اوقات کچھ لوگ تقدیر کی آڑ میں اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کاروبار اور معاش کیلئے تگ و دو چھوڑ دیں جو مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ مل کر ہی رہے گا تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس کے لئے تقدیر کے ساتھ ساتھ تگ و دو اور بھاگ دوڑ بھی ضروری ہے جس طرح یہاں تقدیر انسان پر جبر کرکے اسے تگ و دو سے نہیں روکتی بلکہ وہ عمل کے لئے آزاد ہے اسی طرح کسی بھی معاملے میں اس پر تقدیر کا جبر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر عمل کے لئے آزاد و خود مختار ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:. (ترجمہ) ’’ اور انسان کیلئے وہی کچھ ہوگا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی ‘‘ (53:40) {آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:-’’ تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں بدل سکتی اور عمر میںاضافہ صلہ رحمی (رشتہ داری نبھانا) کے علاوہ کوئی چیز نہیں کر سکتی۔‘‘(ترمذی عن سلمان فارسی رضی اللہ عنہ )

اس لئے ہر نمازکے بعد یہ دعامانگئے: یا اللہ مرتے وقت میری زبان پر لَآ اِ لٰـــہَ اِ لَّا ا للّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہو اور مجھے صرف اپنی رحمت و فضل سے جنت ا لفردوس عطافرمائیے۔آمین}

تقدیر کی یہ قسم جو اوپر بیان کی گئی ہے اس کو تقدیر مُعَلَّق کہتے ہیں تقدیر کی دو سری قسم بھی ہے جس کو تقدیر مُبْرَم کہتے ہیں تقدیر مبرم وہ ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے پر انسان کو نہ تو جزا ملے گی اور نہ ہی سزا ۔صرف اس لئے کہ اس پر نہ تو اس کا اختیار ہے اور نہ ہی وہ عمل کرنے کے لئے آزاد ہے۔مثلاً موت، مرنے کی جگہ، پیدائش کی جگہ، رزق وغیرہ ۔

تقدیر پر ایمان لانا اور یقین محکم سے مسلمان کی زندگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے جب یہ یقین ہوجائے کہ موت نہ وقت مقررہ سے ٹل سکتی ہے اور نہ ہی اس سے پہلے آسکتی ہے تو دل سے موت کا خوف نکل جاتا ہے۔ جب یہ یقین ہوجائے کہ اﷲتعالیٰ کی مرضی کے بغیر نہ کوئی مصیبت آسکتی ہے اور نہ ہی جاسکتی ہے تو پھر دل سے اﷲتعالیٰ کی مخلوق کا خوف بھی نکل جاتا ہے ۔اور صرف اﷲکریم کی رضا رہ جاتی ہے ۔اور یہ ایمان بن جاتا ہے کہ ہماری ہر کامیابی اﷲتعالیٰ کے صرف فضل و کرم کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔اور جو ناکامی ہوتی ہے اس میں بھی اﷲرحیم کی کوئی نہ کوئی مصلحت شامل ہوتی ہے یا خود ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں صبر کی صورت میں ہمارے گناہ معاف ہوتے ہیں جو کہ خود ایک بہت بڑی مصلحت ہے ۔ اکثر اوقات اس بات کا مشا ہدہ ہوا ہے کہ جس بات یا نتیجہ کو ہم اپنے لئے برا سمجھ رہے تھے بعد میں معلوم ہوتاہے کہ وہ برا نہ تھا بلکہ بہت اچھا تھا۔(تفصیل کے لئے پڑھئے تفسیر2 : 216) }

867 رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔’’تم میں سے ہر شخص اپنی ماں کے پیٹ میں 40 دن نطفہ کی صورت میں، پھر 40 دن جمے ہوئے خون کی صورت میں، پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی صورت میںرہتاہے، پھر فرشتہ کو بھیجا جاتا ہے وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے، پھر اس کو 4 کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کا رزق، اس کی زندگی، اس کا عمل اور اس کی بد بختی یا خوش نصیبی ہونا لکھ دیا جاتا ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، ایک شخص جنتیوں کے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ پھر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے پھر وہ جہنمیوں جیسے عمل کرتا ہے اور جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک شخص جہنمیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس شخص اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جنتیوں جیسے عمل کرتا ہے اور جنت میںداخل ہوجاتا ہے ‘‘۔(عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ )

868 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ماں کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو عرض کرتا ہے یہ نطفہ ہے، اے رب ،اب یہ جما ہوا خون ہے۔ اے رب یہ خون کا لوتھڑا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو فرشتہ عرض کرتا ہے اے رب ،یہ نر ہے یا مادہ؟ شقی ہے یا سعید ؟ اس کا رزق کتنا ہے اور اس کی عمر کیا ہے؟ پس اس طرح اس کی ماں کے پیٹ میں ہی سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے ‘‘۔(عن انس رضی اللہ عنہ )

{وضاحت : انسان کے اپنی ماں کے پیٹ میں ہی اس کا رزق، عمر، سعادت و شقاوت، جنتی یا دوزخی ہونا لکھ دیا جاتا ہے، یہی تقدیر کہلاتی ہے جس پر ایمان لانا فرض ہے۔}

869ہم بقیع غرقد (جنت البقیع) میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ ہمارے پاس

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاکر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر جھکایا اور اپنی چھڑی سے زمین کریدنے لگے۔ پھر فرمایا:۔ ’’تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے جنت یا جہنم میں لکھ دیا ہے اور اس کا اچھا ہونا یا برا ہونا بھی اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے‘‘۔ ایک شخص نے کہا ’’ اے اللہ کے رسول، ہم اپنے متعلق لکھے ہوئے پر اعتماد کیوں نہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’جو شخص خوش نصیبوں میں سے ہوگا وہ عنقریب خوش نصیبوں کی طرح عمل کرے گااور جو شخص برے لوگوں میں سے ہوگا وہ عنقریب برے عمل کرنے والوں میں شامل ہوگا‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’عمل کرو، نیک لوگوں کے لئے نیک اعمال آسان کردیئے جائیں گے اور برے لوگوں کے لئے برے اعمال آسان کردیئے جائیں گے‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:۔ (ترجمہ)’’جس نے صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا اور نیکی کی تصدیق کی ہم اس کے لئے نیکیوں کو آسان کردیں گے اور جس نے کنجوسی کی اور لاپرواہی کی اور نیکی کو جھٹلایا ہم اس کے لئے برائیوں کو آسان کردیں گے‘‘(سورئہ الیل 92 : آیات 5-10)۔ (عن علی رضی اللہ عنہ )

870رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’آدم اور موسیٰنے اللہ کے سامنے بحث کی تو آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب ہوگئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ وہی آدم علیہ السلام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں رکھا، پھر آپ کی غلطی کی و جہ سے جنت سے زمین پر منتقل کیا۔ آدم علیہ السلام نے فرمایاکہ آپ وہی موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے فضیلت دی اور آپ کو (تورات کی) وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے اور آپ کو سرگوشی کے لئے منتخب فرمایا۔ بتاؤ آپکی معلومات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے میرے پیدا کئے جانے سے کتنا عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا 40 سال پہلے۔ آدم علیہ السلام نے کہا آپ نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور وہ گمراہ ہوئے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ میرے اس عمل میں ملامت کررہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے 40 سال پہلے لکھ دیا تھا میں یہ عمل کروں گا‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔’’پھر آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے ‘‘۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )

{وضاحت : آدم علیہ السلام کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ اے موسیٰ علیہ السلام تم کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے پہلے یہ و جہ لکھ دی تھی اور میرے حق میں مقدر کردی تھی اس لئے اس کا ہونا یقینی تھا اور اگر میں تمام مخلوق کے ساتھ مل کر بھی اس و جہ سے ایک ذرہ کے برابر بھی انکار کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا تو تم مجھے اس پر کیوں ملامت کرتے ہو۔}

871رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔’’اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے

50 ہز ا ر سال پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا اوراس وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا ‘‘(عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما )

872مشرکین قریش تقدیر کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بحث کرنے کے لئے آئے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی : (ترجمہ)’’جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیںگے اور ان سے کہا جائے گا کہ دوزخ کا عذاب چکھو، بے شک ہم نے ہر چیز تقدیر کے ساتھ بنائی ہے ‘‘ (سورئہ ا لقمر 54 : آیات 48-49)۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )

873 رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’تمام بنی آدم کے دل ، رحمن (اللہ) کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ۔ جس کے لئے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ دُعا بار بار پڑھتے تھے :

اَ للّٰھُمَّ مُصَرِّفَ ا لْقُلُوْ بِ صَرِّ فْ قُلُوْ بَنَا عَلـٰی طَا عَتِکَ

(ترجمہ) اے اللہ، دلوں کے پھیرنے والے، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دیجئے‘‘۔(عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ )

874رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’ابن آدم پر جو اس کے زنا کا حصہ لکھا ہوا ہے وہ اس کوملے گا، پس آنکھوں کا زنا (غیر محرم عورتوں کو) دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا (فحش) بات سننا ہے اور زبان کا زنا غیرمناسب بات کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا غیر محرم کو پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا غیر محرم کیلئے چلنا ہے ۔ دل زنا کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے‘‘۔(عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )

وضاحت : بعض لوگ حقیقی زنا کرتے ہیں اور بعض لوگ مجازاً زنا کرتے ہیں ۔ دل میں برے خیالات اور گناہ کی طرف رغبت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اگر اس کا علاج کرتے رہیں اور ان برے خیالات پر عمل نہ کریں تو گناہ نہیں لکھا جائے گا بلکہ گناہ نہ کرنے پر ایک نیکی لکھی جائے گی اس لئے برے خیالات آنے کے فوراً بعد بار بار پڑھئیے:

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

875رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں، جیسے جانور کا مکمل بچہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا تمہیں کوئی عضو کٹا ہوا نظر آتاہے؟۔(یعنی کوئی نظر نہیں آتا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (ترجمہ)’’(اے لوگو اپنے اوپر) اللہ کی بنائی ہوئی فطرت (دین اسلام) کو اختیار کرلو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی تخلیق میں کچھ رد و بدل نہیں ہوسکتا ہے ‘‘(سورئہ الروم 30: آیت 30)۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )

{وضاحت : ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اپنے آبائو اجداد کی پشتوں میں بچوں سے توحید پر قائم رہنے کا جو وعدہ لیا گیا وہ فطرت ہے بچے اسی وعدہ پر پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر ماں باپ کی و جہ سے وہ فطرت بدل جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے پڑھیئے ترجمہ و تفسیر سورئہ ا عراف 7 : آیت 172۔}

876ام حبیبہ رضی اللہ عنھا نے دعا کی ’’اے اللہ، میرے شوہر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ، میرے والد

ابو سفیان اور میرے بھائی کی درازی عمر سے مجھے فائدہ پہنچے ‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:۔’’تم نے اللہ تعالیٰ سے ان مدتوں کا سوال کیا جو مقرر ہیں اور ان قدموں کا جو معین ہیں اور اس رزق کا جو تقسیم ہوچکا ہے۔ ان میں سے کوئی چیز وقت پورا ہونے سے پہلے مقدم نہیں ہوگی اور نہ وقت پورا ہونے کے بعد واقع ہوگی۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرتیں کہ ا للہ تعالیٰ تمہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور قبر کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا‘‘۔ ایک شخص نے پوچھا اے اللہ کے رسول :۔’’کیا (موجودہ) بندر اور خنزیر انہی لوگوں کی نسل سے ہیں جن کی شکلیں بگاڑ دی گئی تھیں‘‘؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو عذاب دے کر یا ہلاک کرکے اس کی آگے نسل نہیں چلائی، بے شک بندر اور خنزیر اس سے پہلے بھی تھے ‘‘۔ (عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )

{وضاحت :۔ وہ لوگ جو اﷲ کے حکم سے بندر اور خنزیر بنے تھے وہ 3دن کے بعد مرگئے تھے اس لئے موجودہ بندر اور خنزیر ان کی نسل میں سے نہیں ہیں۔(تفسیر ابن کثیر)

877 رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پکا مومن کمزور مومن سے زیادہ اچھا اور زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر ہے۔ جو چیز تم کو نفع دے اس میں حرص کرو، اللہ کی مدد چاہو اور تھک کر نہ بیٹھ جائو۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کاش میں ایسا کرلیتا ۔ البتہ یہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اس نے جو چاہا کردیا، یہ لفظ ’’ کاش ‘‘ شیطان کہلواتا ہے ‘‘۔ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )

محبت كا تہوار" ويلنٹائن ڈے"

کتاب وسنت کی روشنی میں
بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ وحدہ والصلاة والسلام علی نبينا محمد وعلى آلہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسان إلي يوم الدين وبعد:
اللہ تعالى كا ارشاد ہے ﴿ [ البقرۃ : 120]" آپ سے یہود ونصارى ہرگزراضی نہیں ہونگے جب تک کہ آپ انکے مذہب کے تابع نہ بن جائیں "
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "تم اپنے سے پہلی امتوں کےطریقوں کی ضرور
باضرور پیروی کروگے, بالشت دربالشت, ہاتہ درہاتہ ’حتی کہ اگر وہ گوہ کےبل میں داخل ہوئے ہونگے تو تم بھی ان کی پیروی میں اسمیں داخل ہوگے, ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہود اورنصارى؟ آپ نے فرمایا: پھراور کون؟ !"
(صحيح بخاري كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة :8/151)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (مَن تَشَبّہ بِقَومٍ فَہُوَ مِنھُم) "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے " (مسند احمد ك2/50)
قارئين كرام! رب كريم كا ہم پر لا کہ لاکہ شکرو احسان ہے کہ ہمیں اس دنیائے آب وگل میں پیدا کرنے کے بعد ہماري رشدوہدایت کے لئے أنبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کیا ,جوحسب ضرورت وقتا فوقتا ًہر قوم میں خدائی پیغام کو پہنچاتے رہے ,اوراس سلسلہ نبوت کے آخری کڑی احمد مجتبى'محمد مصطفے' صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جوکسی خاص قوم کیلئے نہیں ,بلکہ ساری انسانیت کے لئے رشدوہدایت کا چراغ بن کرآئے , جنہوں نے راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم کے روشن شاہراہ پرلا کر گامزن کیا, اورتیئیس سالہ دور نبوت کے اندر رب کریم نے دین کومکمل کردیا اور یہ فرما ن جاری کردیا کہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ﴾ (سورۃ المائدہ: 3 ) " آج میںنے تمہارےلئے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پورکردیا اور تمہارے لئےاسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا "
يہ آیت کریمہ حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ کے دن عرفہ کی تاریخ کو نازل ہوئی
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ شریعت کی تکمیل کا اعلان کردیا گیا ,لہذا اب دین میں کسی کمی وزیادتی کی ضرورت باقی نہ رہی ,اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ :"لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے, ایک کتاب اللہ دوسری میری سنت یعنی حدیث " پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چند مہینے کے بعد انتقال ہوگیا ,اور لوگ چند صدیوں تک دین کے صحیح شاہراہ پر قائم رہے یہاں تک کہ خیرالقرون کا دور ختم ہوگیا , اوررفتہ رفتہ عہد رسالت سے دوری ہوتی گئی اورجہالت عام ہونے لگی , اور دین سے لگاؤ کم ہوتا گیا , مختلف گمراہ اور باطل فرقے جنم لینا شروع کردئیے , یہودو نصارى اور أعداء اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز پکڑتا گیا اور بہت سارے باطل رسم ورواج اورغیر دینی شعائر مسلمانوں نے یہودونصاری کی اندہی تقلید میں اپنا نا شروع کردیا ,چنانچہ انہیں باطل رسم رواج اورغیر
دینی شعائر میں سے عید الحب (ویلنٹائن ڈے ) یا محبت اورعشق وعاشقی کا تہوار ہے
جسکوموجودہ دورمیں ذرائع إبلاغ ( انٹرنٹ, ٹیلی ویژن, ریڈیو, اخباروجرائد ) کے ذریعہ پوری دنیا میں بڑے ہی خوشنما اورمہذب انداز میں پیش کیا جارہاہے ,جسمیںنوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کاباہم سرخ لباس میں ملبوس ہوکر گلابی پھولوں, عشقیہ کارڈوں, چاکلیٹ اورمبارکبادی وغیرہ کے تبادلے کے ذریعے عشق ومحبت کا کھلّم کھلا اظہارہوتا ہے ,اوربے حیائی وفحاشی اورزناکاری کے راستوں کو ہموارکیا جاتا ہے ,اوررومی وثنیت اورعیسائیت کے باطل عقیدے اورتہوارکو فروغ وتقویت دی جاتی ہے,اور مسلمان کافروں کی اند ھی تقلید کرکے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غضب وناراضگی کا مستحق ہوتا ہے.
آئیے ہم آپ کو اس تہو ار کی حقیقت وپس منظر اور اسلامی نقطہ نظرسے اسکے حکم کے بارے میں بتاتے چلیں تاکہ اس اندھی رسم ورواج کا مسلم معاشرے سےجو ایک ناسور کی طرح پھیلتا چلا جارہا ہے ,اورنوخیز عمرکے لڑکوں اور لڑکیوں کو فحاشی و زناکاری کی طرف دعوت دے رہا ہے, اسکا علاج ا ورخاتمہ ہوسکے .
ویلنٹائن ڈے (یوم محبت ) کا پس منظر:
يوم محبت رومن بت پرستوں کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے, جبکہ رومیوں کے یہاں بت پرستی سترہ صدیوں سے زیادہ مدت سے رائج تھی, اوریہ¬( تہوار)رومی بت پرستی
کے مفہوم میں حب الہی سے عبار ت ہے .
اس بت پرست تہوار کے سلسلے میں رومیوں اوران کے وارثین عیسائیوں کے یہا ں بہت ساری داستانیں اورکہانیاں مشہورہیں
لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہوریہ ہے کہ:"رومیوں کےاعتقاد کے مطابق شہرروما کے مؤسِّس (روملیوس) کو ایک دن کسی مادہ بھیڑیا نے دودہ پلایا جس کی وجہ سے اسے قوت فکری اور حلم وبردباری حاصل ہوگئی ,
لہذارومی لوگ اس حادثہ کی وجہ سے ہرسال فروری کے وسط میں اس تہوار کو منایا کرتے ہیں,اسکا طریقہ یہ تھا کہ کتا اور بکری ذبح کرتے اور دو طاقتور مضبوط نوجوان اپنے جسم پر کتے اور بکری کے خون کا لیپ کرتے,اور پھر اس خون کو دودہ سے دہوتے,اور اسکے بعد ایک بہت بڑا قافلہ سڑکوں پرنکلتا جسکی قیادت دونوں نوجوانوں کے ہاتہ میں ہوتی, اوردونوں نوجوان اپنےساتہ ہاتہ میں چمڑے کے دو ٹکڑے لئے رہتے, جو بھی انہیں ملتا اسے اس ٹکڑے سے مارتے اور رومی عورتیں بڑی خوشی سے اس ٹکڑے کی مار اس اعتقاد سے کھاتیں کہ اس سے شفا اور بانجھ پن دور ہو جاتا ہے ,
سینٹ"ویلنٹائن "کا اس تہوار سے تعلق :
سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دو قدیم قربان ہونے والے اشخاص کا نام ہے, اورایک قول کے مطابق ایک ہی شخص تھا جو شہنشاہ" کلاودیس " کےتعذیب کی تاب نہ لا کر 296ء میں ہلاک ہوگیا .اور جس جگہ ہلاک ہوا اسی جگہ 350میلادی میں بطور یادگار ایک کنیسہ تیار کردیا گیا .
جب رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی تو وہ اپنے اس سابقہ تہوار کو مناتے رہے لیکن انہوں نے اسے بت پرستی(محبت الہی) کے مفہوم سے نکا ل کر دوسرے مفہوم "محبت کے شہداء" میںتبدیل کر دیا ,اورانہوں نے اسے محبت وسلامتی کی دعوت دینے والے"سینٹ ویلنٹائن"کے نام کردیا جسے وہ اپنی گمان کے مطابق اسے اس راستے میں شہید گردانتے ہیں .
اور اسے عاشقوں کی عید اورتہوار کا نام بھی دیتے ہیں, اورسینٹ ویلنٹائن کو عاشقوں کا شفارشی اور ان کا نگراں شمار کرتے ہیں.
اس تہوار کےسلسلے میں ان کے باطل اعتقاد ات میں سے یہ تھی کہ: نوجوان اور شادی کی عمر میں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کے ٹکڑوں پرلکھکر ایک برتن میں ڈالتے اوراسے ٹیبل پر رکھ دیا جاتا,اور شادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکوں کو دعوت دی جاتی کہ ا ن میں سے ہرشخص ایک پرچی کونکا لے ,لہذا جس کا نام اس قرعہ میں نکلتا وہ اس لڑکی کی ایک سال تک خدمت کرتا اور وہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے, پھر بعد میں شادی کرلیتے ,یاپھر آئندہ سال اسی تہوار یوم محبت میں دوبارہ قرعہ اندازی کرتے,
لیکن دین نصرانی کےعلماء اس رسم کے بہت زیادہ مخالف تھے,اوراسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کےاخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیا,لہذا اٹلی جہاں پر اسے بہت شہرت حاصل تھی,اسے باطل وناجائز قراردے دیا گیا , پھر بعد میں اٹھارہ اورانیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا , وہ اس طرح کہ کچہ یوروپی ممالک میں کچھ بکڈپوں پر ایک کتاب (ویلنٹائن کے نام ) کی فروخت شروع ہوئی,جس میں عشق ومحبت کے اشعار تہے ,جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کو خطوط میں لکھنے کیلئے استعمال کرتے تھے,اوراس میں عشق ومحبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چند ایک تجاویزبھی درج تھے.
2- ا س تہوار کاایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ :
"جب رومی بت پرستوںنےنصرانیت قبول کرلی ,اور عیسائیت کے ظہور کےبعد اس میں داخل ہوگئے توتیسری صدی میلادی میں رومانی بادشاہ" کلاودیس دوم" نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگادی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے اسکےساتہ جنگوں میں نہیں جاتے تھے .
لیکن سینٹ ولنٹائن نے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا,اور جب کلاودیس کو اس کا علم ہوا تو اسنے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ,اور اسے پھانسی کی سزا دے دی , کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچہ خفیہ ہوا, کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے نزدیک شادی کرنا اورمحبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں , نصاری کے یہاں اس کی شفارش کی گئی کہ نصرانیت پر قائم رہے , اورشہنشاہ نے اسے عیسائیت ترک کرکے رومی(بت پرستی) دین قبول کرنے کو کہا کہ اگر وہ عیسائیت تر ک کردے تو اسے معاف کردیا جائیگا اور وہ اسے اپنا داماد بنا نے کے ساتھ اپنےمقربین میں شامل کرلے گا ,
لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کردیا اورعیسائیت کو ترجیح دی اوراسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا, تو چودہ فروری 270ء کے دن اور پندرہ فروری کی رات اسے پھانسی دے دی گئی , اور اسی دن سے اسے" قدیس" یعنی پاکباز بشب کا خطاب دے دیا گیا .
اسی قصہ کوبعض مصادر نے چند تبدیلی کے سا تہ اس طرح ذکرکیا ہے : ( کہ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے اواخرمیں رومانی بادشاہ "کلاودیس ثانی" کے زیر اہتمام رہتا تھا , کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے پادری کو جیل کےحوالے کردیا ,جیل میں جیل کے ایک چوکیدار کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہوگئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا , یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلیا اور اس کے ساتہ اس کے 46/رشتہ دار بھی نصرانی ہوگئے , وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لئے آتی تھی , جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کردیا , پادری کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے یہ ارادہ کیا کہ اس کا آخری لمحہ اس کی معشوقہ کے ساتہ ہو ,چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ ارسال کیا جس پر لکھا ہوا تھا " نجات دہندہ ویلنٹائن کی طرف سے "پھر اسے 14/فروري 270ء كو پھانسی دے دی گئی –اس کے بعد یورپ کی بہت ساری بستیوں میں ہر سال اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کوکارڈ بھییجنے کا رواج چل پڑا , ایک زمانہ کے بعد پادریوں نے سابقہ عبارت کو اس طرح بدل دیا "پادری ویلنٹائن کےنام سے " انہوں نے ایسا اسلئے کیا تاکہ پادری ویلنٹائن اور اس کی معشوقہ کی یادگارکو زندہ جاوید کردیں )
اور کتاب" قصۃ الحضارۃ" میں ہے کہ : کنیسہ نے گرجا گھر کی ایک ایسی ڈائری تیارکی ہے جس میں ہر دن کسی نہ کسی پادری(قدیس) کا تہوارمقرر کیاجاتا ہے ,اورانگلینڈ میں سینٹ ویلنٹائن کا تہوار موسم سرما کے آخر میں منایا جاتا ہے اورجب یہ دن آتا ہے تو ان کے کہنے کے مطابق جنگلوں میں پرندے بڑی گرمجوشی کے ساتہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں , اورنوجوان اپنی محبوبہ لڑکیوں کے گھروں کی دہلیزپرسرخ گلاب کے پھول رکھتے ہیں ,(قصۃ الحضارۃ تالیف: ول ڈیورنٹ (15-33)
" ویلنٹائن ڈے " کے أہم ترین شعار :
1-دیگر تہواروں کی طرح خوشی وسرور کا اظہار
2- سرخ گلاب کے پھولوں کا تبا دلہ اوروہ یہ کام بت پرستوں کی حب الہی اورنصاری کے باب عشق کی تعبیرمیں کرتے ہیں .اوراسی لئے اسکا نام بھی عاشقوں کا تہوار ہے
3 – اس کی خوشی میں کارڈوں کی تقسیم , اور بعض کارڈوں میں کیوبڈ کی تصویر ہوتی ہے جو ایک بچے کی خیالی تصویر بنائی گئی ہے اس کے دوپیر ہیں اور اس نے تیر کمان اٹھا رکھا ہے ,جسے رومی بت پرست قوم,محبت کا الہ مانتے ہیں ,
4-کارڈوں میں محبت وعشقیہ کلمات کا تبادلہ جو اشعار,یا نثر,یا چھوٹے چھوٹے جملوں کی شکل میں ہوتے ہیں , اور بعض کارڈوں میں گندے قسم کے أقوال اور ہنسانے والی تصویریں ہوتی ہیں , اور عام طورپر اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ"ولنٹائینی ہو جاؤ" جو کہ بت پرستی کے مفہوم سے منتقل ہو کر نصرانی مفہوم کی تمثیل بنتی ہے ,
5-بہت سے نصرانی علاقوں میں دن کے وقت بھی محفلیں سجائی جاتی ہیں ,اوررات کو بھی عورتوں اورمردوں کا رقص وسرور ہوتا ہے ,اور بہت سے لوگ پھول , چاکلیٹ کے پیکٹ وغیرہ بطورتحفہ محبت کرنے والوں , شوہروں اور دوست واحباب کو بھیجتے ہیں .
مذکورہ بالا کہانیوں کے تناظرمیں یہ کہا حاسکتا ھےکہ:
* یہ تہوار اصلاً رومی بت پرستوں کا عقیدہ ہےجسے وہ محبت کے الہ سے تعبیرکرتے ہیں.
*اوررومیوں کے یہاں اس تہوارکی ابتدا قصے کہانیوں اورخرافات پرمشتمل تھی جیسے: مادہ بھیڑیےکا" شہرروم کے مؤسِّس"کودودھ پلانا جو حلم وبردباری اورقوت فکرمیں زیادتی کا سبب بنا ,یہ عقل کے خلاف ہے,کیونکہ حلم وبردباری اورقرت وفکر میں اضافہ کا مالک اللہ تعالى ہے نہ کہ بھیڑیا ,اوراسی طرح یہ عقیدہ کہ ان کے بت برائی اورمصیبت کو دفع کرتے ہیں اورجانوروں کو بھیڑیوں کی شر سے دوررکھتے ہیں باطل اور شرکیہ عقیدہ ہے.
*اس تہوار سے بشب ویلنٹائن کے مرتبط ہونے میں کئی ایک مصادر نے شک کا اظہارکیا ہے اوراسے وہ صحیح شمارنہیں کرتے ,
* کیتھولیک فرقہ کے عیسائی علماء نےاس تہوارکو اٹلی میںمنانے پر پابندی لگا دی , کیونکہ اس سے گندے اخلاق کی اشاعت , اورلڑکوں و لڑکیوں کی عقلوں پر برا اثر پڑتا ہے , اورفحاشی وزناکاری کا دروازہ کھلتا ہے .
مسلمانون کے لئے اس تہوارکا منانا کئی وجہوں سے نا جائزہے :
1-اسلام میں عیدوں کی تعداد محدود و ثابت(زیادتی وکمی ممکن نہیں) اور توقیفی ہیں ,
ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (عیدین اورتہوارشرع اورمنا ہج ومناسک میں سے ہیں جن کے بارےمیں اللہ تعالى کا فرمان ھے:(ہم نے ہر ایک کیلئے طریقہ اور شریعت مقررکی
ہے) اورایک دوسری آیت میں اسطرح ہے : ( ہم نے ہرقوم کے لئے ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس پروہ چلنتےہیں ) مثلا: قبلہ, نمازاور روزے, لہذا ان کا عید اورباقی مناہج میں شریک ہونے میں کوئی فرق نہیں ,اسلئے کہ سارے تہوار میں موافقت کفر میں موافقت ہے, اوراسکے بعض فروعات میں موافقت کفر کی بعض شاخوں میں موافقت ہے,بلکہ عیدین اورتہوار ہی ایسی چیزیں ہیں جن سے شریعتوں کی تمییز ہوتی ہے, اور جن کی ظاہری شعائر ہوتی ہیں, تو اس میں کفارکی موافقت کرنا گویاکہ کفرکے خاص طریقے اور شعار کی موافقت ہے,اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری شروط کے ساتہ اس میں موافقت کفرتک پہنچا سکتی ہے,اور اس کی ابتداء میں کم ازکم حالت یہ ہے کہ یہ معصیت وگناہ کا سبب ہے , اوراسی کی جانب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ کیا ہے:
"یقیناً ہر قوم کےلئے ایک عید اور تہوار ہے اور یہ ہماری عید ہے" ( صحیح بخاری ح -52 9صحیح مسلم ح /893 )دیکہیں الإقتضاء (11/471-472)
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے کفار,بت پرست رومیوں اورعیسائیوں کے ساتہ مشابہت ہے اورکفار چاہے وہ بت پرست ہوں یا اہل کتاب ان سے عمومی مشابہت اختیارکرنا حرام ہے,چاہے وہ مشابہت عقیدہ میں ہو,یا ان کی عادات ورسم ورواج ,یا عید وتہوارمیں , اللہ کا فرما ن ہے ( اورتم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیںآجانےکے بعد تفرقہ ڈالا اوراختلاف کیا انہیں لوگوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہوگا )[آل عمران :105]
2- اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی وہ انہیں میں سے ہے "مسند احمد (2/50)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :"اس حدیث کی کم ازکم حالت ان سے مشابہت کرنے کی تحریم کا تقاضا کرتی ہے , اگر چہ حدیث کا ظاہرمشابہت کرنے والےکے کفر کا متقاضی ہے جیسا کہ اللہ تعالى کا فرمان ہے ( اورجو بھی تم میں سے ان کے ساتہ دوستی کرے یقیناَ وہ انہیں میں سے ہے " (الإقتضاء1/314,)
اجما ع :ابن تيميہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ :"کفار کی عیدوں اورتہواروں میں مشابہت اختیارکرنے کی حرمت پر تما م صحابہ کرام کے وقت سے لیکر اجما ع ہے ,جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسپر علماء کرام کا اجما ع نقل کیا ہے , (الإقتضاء 1/454) اور أحكام أہل الذمة لإبن القيم :2/722-723)
3-اس دورمیں یوم محبت منانے کا مقصد لوگوں کے مابین محبت کی اشاعت ہے چاہے وہ مومن ہوں یا کافر ,حالانکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ کفار سے محبت ومودت اوردوستی کرنا حرا م ہے اللہ کا ارشاد ہے ( اللہ تعالى اورقیامت کے دن پر ایما ن رکھنے والوں کو آپ ,اللہ تعالى اوراسکے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کرتے ہوئے ہرگز نہیں پائیں گے ,اگر چہ وہ کافر ان کے باپ , یا بیٹے, یا ان کے بھائی, یا ان کے قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں )[ المجادلة :22)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں "اللہ سبحانہ وتعالى نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ کوئی بھی مومن ایسا نہیں پایا جاتا جو کافرسے محبت کرتا ہو, لہذا جو مومن بھی کافر سے محبت کرتا اوردوستی لگاتا ہے وہ مومن نہیں, اور ظاہری مشابہت بھی کفارسے محبت کی غماز ہے لہذا یہ بھی حرام ہوگی "( الإقتضاء (1/490)
اسلئے مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ :
1-اس تہوار کامنانا یا منا نے والوں کی محفل میں شرکت ناجائز ہے, حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " جب یہودیوں کی خاص عید ہے اور عیسائیوں کی اپنی خاص عید تو پھر جس طرح ان کی شریعت اور قبلہ میں مسلمان شخص شریک نہیں, اسی طرح ان کے تہواروں میں بھی شریک نہیں ہوسکتا " (مجلۃ الحکمۃ 3/193)
2- اس تہوار کومنا نے یا انکی محفلوں میں شرکت کرنے سے ان کی مشابہت , انہیں خوشی وسرور,اورانکی تعداد میں بڑھوتری اورزیلدتی حاصل ہوتی ہے جوناجائز ہے,
اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( اے ایمان والو!تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ , یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں , یقیناًاللہ تعالى ظالموں کو ہوگز ہدایت نہیں دکھاتا ) [المائدہ:51]
اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
"مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ کفارسے ان کے خصوصی تہواروں میں ان کے لباس ,کھانے, پینے, غسل کرنے, آگ جلانے ,اور اپنی کوئی عبادت اور کام وغیرہ, یا عبادت سے چھٹی کرنے میں ان کفار کی مشابہت کریں . مختصر طور پریہ کہ :ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ کفار کے کسی خاص تہوار کو ان کے کسی شعار کے ساتہ خصوصیت دیں ,بلکہ ان کے تہوار کا دن, مسلمانوں کے یہاں باقی عام دنوں جیسا ہی ہونا چاہئیے" (مجموع الفتاوى :35/329)
3-مسلمانون میں سے جو بھی اس تہوارکو منا تا ہے اس کی معاونت نہ کی جائے بلکہ اسے اس سے روکنا واجب ہے , کیونکہ مسلمانوں کا کفارکے تہوار کو منانا ایک منکر اور برائی ہے جسے روکنا واجب ہے,
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " اور جس طرح ہم ان کے تہواروں میں کفارکی مشابہت نہیں کرتے , تو اس طرح مسلمانوں کی اس سلسلے میں مدد واعانت بھی نہیں کی جائیگی بلکہ انہیں اس سے روکا جائیگا ) الإقتضاء 2/519-520)
تو شیخ الإسلام کے فیصلے کی بنا پر مسلمان تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوم محبت کے تحفے و تحائف کی تجارت کریں, چاہے وہ کوئی معین قسم کا لباس ہو,یا سرخ گلاب کے پھول وغیرہ,اور اسی طرح اگرکسی شخص کو یوم محبت میں کوئی تحفہ دیا جائےتو اس تحفہ کو قبول کرنا بھی جائز نہیں, کیونکہ اسے قبر ل کرنے میں اس تہوار کا اقرار اور اسے صحیح تسلیم کرنا ہے, اور باطل ومعصیت میں مدد ہے, اللہ تعالى کا فرمان ہے "نيكي اورپرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گنا ہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو "[ المائدۃ:3]
4-یوم محبت کی مبارکبادی کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہ مسلمانوں کا تہوار ہے اور نہ ہی عید , اور اگر کوئی مسلمان کسی کو اسکی مبارکبادی بھی دے تو اسے جوابا مبارکبادی بہی نہیں دینی چاہئیے,
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:" اورکفارکے خصوصی شعارجو صرف ان کے ساتہ ہی خاص ہیں ان کی مبارکبادی دینا متفقہ طور پر حرام ہے مثلا :انہیں ان کے تہواروں, یاروزے کی مبارکبادی دیتے ہوئے یہ کہا جائے :آپ کو عید مبارک ,یا آپ کو یہ تہوار مبارک ہو , لہذا اگر اسے کہنے والا کفرسے بچ جائے تو پھر بھی یہ حرام کردہ اشیاء میں سے ہے , اوریہ اسی طرح ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے والے کسی شخص کو مبارکبادی دی جائے , بلکہ یہ اللہ تعالى کے نزدیک شراب نوشی اور بے گناہ شخص کو قتل کرنے اور زنا کرنے سے بھی زیادہ عظیم اور اللہ کو ناراض کرنے والی ہے , اوربہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہاں دین کی کوئی قدر وقیمت نہیں, وہ اس کا ارتکا ب کر تے ہیں, اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا قبیح جرم کیا ہے , لہذا جس نے بھی کسی کو معصیت اور نافرمانی’ یا کفروبدعت پر مبارکبادی دی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالى کے غصہ اورناراضگی پر پیش کردیا" (أحکام أہل الذمۃ 1/441-442)
"يوم محبت" كے بارے میں عصر حاضر کے علماء کرام کا فتوى :
سوال 1- : فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمن حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: کچہ عرصہ سے یوم محبت کا تہوار منایا جانے لگا ہے ,اور خاص کر طالبات میں اس کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے . جو نصاری کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے اس دن پورا لباس ہی سرخ پہنا جاتا ہے اور جوتے تک سرخ ہوتے ہیں , اور آپس میں سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ,ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس طرح کے تہوارمنانے کا حکم بیان کریں اور اس طرح کےمعاملات میں آپ مسلمانوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ اللہ تعالى آپ کی حفاظت کرے -
جواب : وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاتہ وبعد : يوم محبت كا تہوار كئي وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے :
1-یہ بدعي تہوار ہے اور اسکی شریعت میں کوئی اصل نہیں
2-یہ تہوار عشق ومحبت کی طرف دعوت دیتا ہے
3- یہ تہوار دل کو اس طرح کے سطحی رذیل امور میں مشغول کردیتا ہے جو سلف صالحین کے طریقے سے ہٹ کر ہے, لہذا اس دن اس تہوار کی کوئی علامت اور شعار ظاہر کرنا جائزنہیں ’چاہے وہ کھانے پینے میں ہو, یا لباس ,یا تحفے تحائف کے تبادلہ کی شکل میں ہو, یا اسکے علاوہ کسی اور شکل میں ہو ,
اور مسلمان شخص کو چاہئے کہ اپنے دین کو عزیز سمجھے, اورایسا شخص نہ بنے کہ ہر ھانک لگانے والےکے پیچھے چلنا شروع کردے(یعنی ہر ایک کے رائے وقول کی صحیح و غلط کی تمییزکئے بغیر پیروی اوراتباع کرنے لگے) ,میری اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو ہرطرح کے ظاہری وباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے اورہمیں اپنی ولایت میں لے اور توفیق سے نوازے واللہ تعالى أعلم ,
مستقل کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء کا فتوى :
سوال : بعض لوگ ہر سال چودہ فروری کو یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کا تہوار مناتے ہیں اور اس دن آپس میں ایک دوسرے کو سرخ گلاب کے پھول ہدیہ میں دیتے ہیں اور سرخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادی بھی دیتے ہیں, اوربعض مٹھا ئی کی د کان والے سرخ رنگ کی مٹھائی تیارکرکے اس پر دل کا نشان بناتے ہیں , اوربعض دکانداراپنے مال پراس دن خصوصی اعلانات بھی چسپاں کرتے ہیں , تو اس سلسلےمیں آپ کی کیارائےہے؟
جواب: سوال پرغورفکر کرنےکے بعد مستقل کمیٹی نے کہا کہ :کتاب وسنت کی واضح دلائل ,اورسلف صالحین کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں کوئی تیسرا نہیں ,ایک عید الفطر اور دوسرا عید الأضحى,ان دونوں کے علاوہ جوبھی تہواریاعید چاہے کسی عظیم شخصیت سے متعلق ہو,یا جماعت سے ,یا کسی واقعہ سے ,یا اورکسی معنی سے تعلق ہو سب بدعی تہوارہیں ,مسلمان کیلئے انکا منانا, یا اقرار کرنا ,یااس تہوارسے خوش ہونا ,یا اس تہوارکا کسی بھی چیزکے ذریعہ تعاون کرناجائزنہیں ,اسلئے کہ یہ اللہ کے حدود میں زیادتی ہے اورجو شخص بھی حدوداللہ میں زیادتی پید ا کرے گا تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا
اورجب ایجاد کردہ تہوار کے ساتہ یہ مل گیا کہ یہ کفارکے تہواروں میں سے ہے تویہ گنا ہ اورمعصیت ہے اسلئے کہ اس میں کفار کی مشابہت اورموالات ودوستی پائی جاتی ہے , اوراللہ تعالى نے مومنوں کو کفارکی مشابہت اوران سے مودت ومحبت کرنے سے اپنے کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا یہ فرمان ثابت ہے کہ:(من تشبہ بقوم فہومنہم) "جوشخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ہو انھیں میں سے ہے".
اور"محبت کا تہوار"بعینہ مذکورہ بالاجنس یاقبیل سے ہے اسلئے کہ یہ بت پرست نصرانیت کے تہواروں میں سے ہے ,لہذا کسی مسلمان کلمہ گوشخص کیلئے جو اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہواس تہوارکو منانا, یا اقرارکرنا, یا اسکی مبارکبادی دینا جائزنہیں ,بلکہ اللہ ورسول کی دعوت پر لبیک کہتےہوئے ,اورانکی غضب وناراضگی سے دوررہتے ہوئے اس تہوار کا چھوڑنا اوراس سے بچنا ضروری ہے ,اسی طرح مسلمان کیلئے اس تہواریا دیگرحرام تہواروں میں کسی بھی طرح کی اعانت کرنا حرام ہے چا ہے وہ تعاون کھانے,یاپینے, یا خرید وفروخت,یا صنا عت, یا ہدیہ وتحفہ, یا خط وکتابت یا اعلانات وغیرہ کے ذریعہ ہو ,اسلئے کہ یہ سب گناہ وسرکشی میں تعاون, اوراللہ ورسول کی نافرما نی کے قبیل سے ہیں ,اور اللہ تعالى کا فرمان ہے :
"نیکی اور پرہیزگاری کے معاملے میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اورگناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو , اوراللہ تعالى سے ڈرتے رہو ,بے شک اللہ تعالى سخت سزا دینے والا ہے " .[ المائدہ:4]
اورمسلمان کیلئے ہوحالت میں کتاب وسنت کو پکڑے رہنا خا ص طورسے فتنہ وکثرت فساد کے اوقات میں لازم وضروری ہے , اسی طرح ان لوگوں کی گمراہیوں میں واقع ہونے سے بچاؤ اورہوشیاری اختیارکرنا بھی ضروری ہے جن پر اللہ کا غضب ہوا اورجو گمراہ ہیں (یعنی یہود ونصاری), اوران فاسقوں سے بھی جو اللہ کی قدروپاس نہیں رکھتےاورنہ ہی اسلام کی سربلندی چاہتے ,
اورمسلمان کے لئے ضروری کہ وہ ہدایت اوراس پے ثابت قدمی کے لئے اللہ ہی کی طرف رجوع کرے کیونکہ ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے اور اسی کے ہاتہ میں توفیق ہے ,اوراللہ ہمارے نبی محمد انکے آل وأصحاب پر درودوسلام نازل فرمائے آمین !
(دائمی کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء ,فتو ى نمبر:) 21203) بتاریخ 23/11/1420 ھ
*نوٹ:( اس مقالہ كا اكثر مواد چند تبدیلیوں کے سا تہ "www.islamQA.com" سے مأخوذ ہے )